سویڈن میں مسلمان مخالف ڈینش سیاست دان کو 'قرآن کی بے حرمتی' سے متعلق ہونے والی ایک ریلی میں شرکت سے روکنے پر انتہا پسند مظاہرین اور پولیس کے مابین جھڑپوں میں متعدد پولیس اہلکار زخمی ہوگئے، جس کے بعد پولیس نے 10 افراد کو گرفتار کرلیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ میں پولیس اور مقامی ذرائع ابلاغ کے حوالے سے بتایا گیا کہ جمعہ کے روز جنوبی سویڈن کے شہر مالمو کی سڑکوں پر مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ کیا اور ٹائر جلائے۔

مزید پڑھیں: سویڈن:مسلم خاتون نے ہاتھ نہ ملانے پر امتیازی سلوک کا مقدمہ جیت لیا

پولیس کے ترجمان ریکارڈ لنڈکویسٹ کے مطابق اس دن 300 سے زائد مظاہرین جمع ہوئے اور انہوں نے مبینہ طور پر اسلامی مقدس کتاب (قرآن) کے نسخے نذر آتش کیے۔

پولیس ترجمان نے بتایا کہ جمعہ کو 10 سے 20 مظاہرین کو گرفتار کیا گیا تھا اور اب 'سب کو رہا کردیا گیا ہے'۔

انہوں نے مزید بتایا کہ واقعے میں متعدد پولیس اہلکار معمولی زخمی ہوئے ہیں۔

ڈنمارک میں انتہائی دائیں بازو کی اینٹی امیگریشن پارٹی 'ہارڈ لائن' کے راسمس پلوڈن جمعے کو ہونے والی ریلی میں تقریر کرنے کے لیے مالمو کا سفر کررہے تھے جنہیں گرفتار کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کی ناروے میں قرآن پاک کی مبینہ بے حرمتی کی مذمت

راسمس پلوڈن کی گرفتاری کے موقع پر حکام نے اعلان کیا تھا کہ ان کے دو سال کے لیے سویڈن میں داخلے پر پابندی عائد ہے۔

مالمو میں پولیس کے ترجمان نے بتایا کہ 'ہمیں شبہ ہے کہ وہ سویڈن میں قانون کو توڑنے والے تھے'۔

پولیس کے مطابق یہ بھی ایک خطرہ تھا کہ راسمس پلوڈن کے برتاؤ سے معاشرے کو خطرہ لاحق ہوتا۔

مزید پڑھیں: ترجمان پاک فوج کا ناروے میں قرآن پاک کی بے حرمتی روکنے والے نوجوان کو سلام

بعدازاں راسمس پلڈون نے فیس بک پر ایک تنقیدی پیغام میں کہا کہ 'واپس بھیج دیا گیا اور دو سال کے لیے سویڈن میں داخل پر پابندی عائد کردی گئی لیکن زیادتی کرنے والوں اور قاتلوں کا ہمیشہ خیرمقدم کیا جائے گا'۔

انہوں نے کہا کہ 'مالمو 3 لاکھ 20 ہزار افراد کا ایک صنعتی شہر ہے اس کے 40 فیصد سے زیادہ باشندے دوسرے مملک سے تعلق رکھتے ہیں'۔

مالمو کے رہائشی شہید نامی ایک شخص نے نشریاتی ادارے ایس وی ٹی کو بتایا کہ 'یہ قطعی طور پر درست نہیں'، لیکن یہ سب نہ ہوتا اگر وہ قرآن پاک کے نسخے نذر آتش نہ کرتے'۔

گزشتہ 20 سال سے مالمو میں رہائش پذیر سلیم محمد علی نے چینل کو بتایا کہ 'یہ تکلیف دیتا ہے' اور 'لوگ غصے میں ہیں اور میں یہ بات سمجھ سکتا ہوں لیکن اس حوالے سے دیگر راستے بھی اختیار کیے جاسکتے ہیں'.

تبصرے (0) بند ہیں