پاکستان نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ بھارت کو 'مودی کی آباد کاری اسکیم' کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے سے روکے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی مکمل سالانہ رپورٹ سے متعلق غیر رسمی اجلاس کے دوران پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے کہا کہ 'کونسل نے ہندوتوا انتہا پسند گروپوں پر لگام ڈالنے کے لیے بہت کم کام کیا ہے جو پورے بھارت خصوصا مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کو دہشت زدہ کررہے ہیں'۔

مزیدپڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں 'مودی کی آباد کاری اسکیم'، 4 لاکھ سے زائد نئے ڈومیسائل جاری

انہوں نے کہا کہ بھارتیہ جتنا پارٹی اور آر ایس ایس کے گٹھ جوڑ پر مبنی حکومت مقبوضہ کشمیر میں خود کو 'حتمی حل ' کے نام سے موسوم کر رہی ہے۔

منیر اکرم نے کہا کہ آباد کاری کے ذریعہ آبادیاتی سیلاب کا مقصد کشمیری عوام کو تقسیم اور ان کے آزادانہ حقوق سے محروم کرنا اور ان کی مسلم شناخت کو ختم کرنا ہے۔"

پاکستانی مندوب نے عالمی ادارہ کو یاد دلایا کہ کشمیر کے بارے میں اس کی اپنی قراردادیں 70 سال سے زیادہ عرصے سے لاگو ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر بین الاقوامی برادری تنازعات کی روک تھام اور تنازعات کے پر امن حل کو فروغ دینے کی اپنی کوششوں میں کامیاب نہیں ہوسکتی ہے تو اس کی اپنی قراردادیں جان بوجھ کر کچھ لوگوں کے ہاتھوں نظرانداز ہورہی ہیں۔

اقوام متحدہ میں پاکستانی سفیر نے کہا کہ سلامتی کونسل سے متعلق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی سالانہ رپورٹ کونسل کے فیصلے اور اقوام متحدہ کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کو واضح کرنے میں ناکام ہے۔

انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی رکھی گئی معلومات پر کوئی کارروائی نہیں کرسکتا۔

مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں بھارتی محاصرے کے 365 روز

انہوں نے دہشت گردی، فاشزم اور استعمار سے نمٹنے کے لیے کونسل کی کوششوں پر توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیا۔

منیر اکرم نے کہا کہ کونسل نے انتہا پسندی اور فاشسٹ ہندوتوا گروپوں کے ذریعے دہشت گردی کو نظرانداز کرتے ہوئے القاعدہ اور داعش کا مقابلہ کرنے پر توجہ دی ہے۔

انہوں نے شرکا کو آگاہ کیا کہ گزشتہ سال کونسل نے جموں و کشمیر کے معاملے پر تین اجلاس منعقد کیے تھے اور اجلاس نے 5 اگست 2019 کو بھارتی کارروائی کی غیر قانونی ہونے کی تصدیق کی۔

انہوں نے مزید کہا کہ لیکن کونسل اپنی قرار دادوں اور فیصلوں پر عمل درآمد کی خواہش کرتی رہی ہے جس میں جموں و کشمیر بھی شامل ہے جبکہ پابندیوں کی کمیٹیاں زیادہ شفافیت کی متقاضی ہیں۔

منیر اکرم نے کہا کہ 70 سال سے زیادہ عرصہ سے بھارت 9 لاکھ فوجیوں کے ساتھ مقبوضہ علاقے میں دہشت گردی کا راج کررہا ہے جبکہ 8 لاکھ کشمیریوں کو ایک مکمل محاصرے میں رکھا گیا ہے۔

اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ناقدین کا کہنا ہے کہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی حکومت کی جانب سے کیے گئے آباد کاری کے اقدامات کی طرز پر عمل درآمد کرتے ہوئے مودی کی ہندو انتہا پسند حکومت مقبوضہ کشمیر کے مسلمان اکثریتی خطے کی شناخت کو تبدیل کرنا چاہتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر: بھارتی فورسز نے 24 گھنٹے میں 5 کشمیری نوجوانوں کو شہید کردیا

واضح رہے کہ ہمالیہ کا یہ خطہ 1947 میں برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان تقسیم ہوگیا تھا۔

خطے کی 65 فیصد سے زائد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے، جہاں بھارتی حکومت کے خلاف 100 فیصد تک نفرت پائی جاتی ہے۔

5 اگست 2019 کو بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے آرٹیکل کو ختم کردیا تھا، جس کے مطابق ان کو علیحدہ پرچم اور آئین کا حق بھی حاصل تھا۔

بھارت کی ہندو انتہا پسند تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس)، جو بھارتیہ جنتا پارٹی (پی جے پی) کی پیرنٹ جماعت ہے، کی جانب سے مذکورہ اقدامات کو کشمیر میں نافذ کرنے کے لیے کئی عرصے سے مطالبہ کیا جا رہا تھا۔

مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا ایک سال، ملک بھر میں یومِ استحصال منایا گیا

علاوہ ازیں نریندر مودی کی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں نافذ خصوصی رہائشی قوانین کو بھی ختم کردیا، جو 1927 سے نافذ تھے، اور ان کے مطابق صرف مستقل رہائشی کو ہی زمین اور جائیداد خریدنے جبکہ سرکاری ملازمت، یونیورسٹیز میں جگہ اور مقامی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی اجازت تھی۔

لیکن بھارتی حکومت کے نئے اقدام کی وجہ سے اب کوئی بھی بھارتی شہری مقبوضہ وادی کے ڈومیسائل کے حصول کے لیے درخواست دے سکتا ہے، جس کے بعد اسے ان تمام معاملات تک رسائی حاصل ہوجائے گی۔

نئے اقدامات کے تحت وہ لوگ ڈومیسائل حاصل کرسکیں گے جو گزشتہ 15 سال سے کشمیر میں رہائش پذیر ہوں، جن میں پاکستان سے ہجرت کرنے والے 28 ہزار مہاجرین اور 17 لاکھ مہاجر مزدور بھی شامل ہیں، اور ان میں سے بیشتر ہندو ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں بھارتی غیر قانونی اقدامات، پاکستان کا سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کا مطالبہ

اس کے ساتھ ہی مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ 7 سال سے کام کرنے والے سرکاری ملازمین اور ان کے بچے یا ایسے افراد، جنہوں نے خاص قسم کا امتحان دیا ہو، وہ بھی ڈومیسائل حاصل کرنے کے اہل ہوں گے۔

تاریخ دان اور سیاسی تجزیہ کار صدیق واحد کے مطابق ‘1947 کے بعد یہ سب سے زیادہ سخت پابندیاں ہیں’، اور ‘جس کا مقصد آبادیاتی (ڈیمو گرافی) طوفان کے راستے کو کھولنا ہے’۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں