سعودی عرب کے بعد بحرین کی بھی 'اسرائیلی پروازوں کو' فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت

اپ ڈیٹ 04 ستمبر 2020
یہ اعلان متحدہ عرب امارات کی ہوا بازی اتھارٹی کی درخواست پر کیا گیا ہے — فائل فوٹو: رائٹرز
یہ اعلان متحدہ عرب امارات کی ہوا بازی اتھارٹی کی درخواست پر کیا گیا ہے — فائل فوٹو: رائٹرز

سعودی عرب کے بعد ایک اور عرب ریاست، بحرین نے بھی متحدہ عرب امارات (یو اے ای) آنے والی اسرائیلی پروازوں کو فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کی رپورٹ کے مطابق بحرین نے ایک جاری بیان میں کہا کہ ‘متحدہ عرب امارات سے آنے اور جانے والی تمام پروازوں کو فضائی راستہ استعمال کرنے کی اجازت ہوگی'۔

مزید پڑھیں: بحرین نے اسرائیل سے تعلقات کی بحالی کے امریکی دباؤ کو مسترد کردیا

یہ بیان بحرین کی سرکاری نیوز ایجنسی (بی این اے) کی جانب سے جاری کیا گیا، جس میں سعودی عرب ہی کی طرح اسرائیل کا نام استعمال نہیں کیا گیا تھا۔

تاہم واضح رہے کہ بحرین کا یہ اعلان سعودی عرب کی جانب سے گزشتہ دونوں اسرائیل کی کمرشل فلائٹ کو تل ابیب سے براہ راست متحدہ عرب امارت پرواز کے لیے فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دینے کے بعد سامنے آیا۔

مذکورہ بیان میں بحرین کی جانب سے ان کے حریف ممالک، جن میں ایران اور قطر شامل ہیں، کے حوالے سے کوئی ذکر سامنے نہیں آیا، سعودی عرب اور امارات نے مذکورہ ممالک کا بائیکاٹ کر رکھا ہے۔

خیال رہے کہ بحرین اور متحدہ عرب امارات کے درمیان پروازیں قطر کے شمالی فضائی راستے سے گزرتی ہیں کیوں کہ دوحہ نے ان ممالک کی جانب سے بائیکاٹ کیے جانے کے بعد مذکورہ ممالک کے لیے فضائی حدود بند کردی تھیں۔

دوسری جانب ایران کی جانب سے متحدہ عرب امارات آنے والی پروازیں بحرین کی فضائی حدود استعمال نہیں کرتی کیوں کہ یہ ریاست خلیج فارس میں سعودی عرب کے ساحل کے قریب ایک جزیرہ ہے۔

بحرین کی سرکاری نیوز ایجنسی (بی این اے) کی جانب سے نشر کیا جانے والا بیان ملک کی ٹرانسپورٹ اور ٹیلی کمیونکیشن وزارت کے دفتر سے جاری کیا گیا تھا، جس میں بتایا گیا تھا کہ یہ اعلان متحدہ عرب امارات کی ہوا بازی اتھارٹی کی درخواست پر کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: یو اے ای کے بعد بحرین اور عمان بھی سفارتی تعلقات استوار کرسکتے ہیں، اسرائیل

یاد رہے کہ بحرین، امریکن نیوی کے فیفتھ فلیٹ اور برطانیہ کے نیول بیس کا میزبان ہے جبکہ اس کے یہودی کمیونٹی سے بھی تاریخی تعلقات ہیں۔

عرب ریاست اسرائیل سے تعلقات کو بہتر کرنے کے حوالے سے بھی ماضی میں بیانات جاری کرچکی ہے، 2017 کو امریکی بیس سے تعلق رکھنے والے دو یہودی ربیوں سے ملاقات کے موقع پر بحرین کے بادشاہ حماد بن عیسیٰ الخلیفہ نے خود سے یہ تجویز پیش کی تھی کہ عرب ممالک کو اسرائیل کا بائیکاٹ ختم کردینا چاہیے۔

اس سے قبل متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان تاریخی معاہدے کے بعد 27 اگست کو امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو اپنے مشرق وسطیٰ کے دورے کے سلسلے میں بحرین کے دارالحکومت ماناما میں موجود تھے، جس کا مقصد صہیونی ریاست کے عرب ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا تھا۔

تاہم بحرین کے بادشاہ حماد بن عیسیٰ الخلیفہ نے ملاقات کے دوران مائیک پومپیو کو کہا تھا کہ ان کا ملک عرب امن اقدام کے لیے پرعزم ہے جس کے تحت اسرائیل سے پرامن اور تعلقات کی بحالی کے بدلے 1967 والے فلسطینی علاقوں سے اسرائیل کا مکمل انخلا چاہتا ہے۔

بحرین نے کہا تھا کہ وہ فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے پرعزم ہے اور ساتھ ہی عرب ممالک کی جانب سے تعلقات کی بحالی کی امریکی خواہش اور دباؤ کو مسترد کردیا تھا۔

بحرین کی سرکاری نیوز ایجنسی 'بی این اے' کے مطابق بادشاہ نے دو ریاستی حل کے تحت فلسطین ۔ اسرائیل تنازع کے خاتمے کے لیے کوششیں تیز کرنے پر زور دیا تھا جس کے تحت ایک آزاد فلسطینی ریاست قائم کی جائے جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو۔

اسرائیل، امارات امن معاہدہ

یاد رہے کہ 13 اگست کو امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے مابین امن معاہدے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ دونوں ممالک باہمی تعلقات استوار کرنے پر متفق ہوگئے ہیں۔

امریکا کے صدر نے کہا تھا کہ اسرائیلی اور متحدہ عرب امارات کے وفود آئندہ ہفتوں میں سرمایہ کاری، سیاحت، براہ راست پروازوں، سلامتی اور باہمی سفارتخانوں کے قیام سے متعلق دوطرفہ معاہدوں پر دستخط کریں گے۔

مزید پڑھیں: اسرائیلی، امریکی وفد کی معاہدے کو حتمی شکل دینے کیلئے متحدہ عرب امارات آمد

واضح رہے کہ متحدہ عرب امارات، اسرائیل کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات قائم کرنے والی پہلی خلیجی ریاست ہوگی اور واحد تیسرا عرب ملک ہوگا۔

مذکورہ اعلان کے بعد متحدہ عرب امارات نے صیہونی ریاست کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنے کے لیے اسرائیل کا بائیکاٹ کرنے سے متعلق قانونی شق منسوخ کردی۔

معاہدے کے حوالے سے میڈیا میں یہ رپورٹس بھی سامنے آئی تھیں کہ اسرائیل مقبوضہ مغربی کنارے کے حصوں کے یکطرفہ الحاق کے اپنے منصوے کو مؤخر کردے گا تاہم اسرائیلی وزیراعظم کے مطابق یہ منصوبہ اب بھی زیر غور ہے۔

ترکی اور ایران نے اس اقدام پر متحدہ عرب امارات پر شدید تنقید کی تھی جبکہ مصر، اردن اور بحرین نے اسے خوش آئند قرار دیا تھا۔

دوسری جانب سعودی عرب نے کہا تھا کہ وہ اس وقت تک متحدہ عرب امارات کی تقلید میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم نہیں کرسکتا جب تک یہودی ریاست فلسطینیوں کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط نہ کردیں۔

علاوہ ازیں وزیراعظم عمران خان نے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین امن معاہدے پر کہا تھا کہ پاکستان کا مؤقف بالکل واضح ہے کہ فلسطینیوں کو ان کا حق ملنے تک ہم اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کرسکتے۔

یہ بھی پڑھیں: اسرائیلی وزیراعظم نے 2018 میں متحدہ عرب امارات کا خفیہ دورہ کیا، رپورٹ

یہ بھی یاد رہے کہ گزشتہ روز اسرائیلی اور امریکی اعلیٰ سطح کا وفد امارات پہنچا تھا جو معاہدے کر حتمی شکل دینے کے حوالے سے بات چیت کے لیے ابو ظبی آیا تھا۔

بعد ازاں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی کابینہ کے ایک رکن نے کہا تھا کہ اسرائیل کو متحدہ عرب امارات سے تعلقات کی بحالی کی تقریب اور معاہدے پر دستخط ستمبر کے وسط میں ہونے کی اُمید ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں