افغان حکومت نے پیدائشی سرٹیفکیٹ میں والدہ کا نام شامل کرنے کی منظوری دے دی

اپ ڈیٹ 06 ستمبر 2020
مجوزہ قانون کو منظوری کے لیے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا—فائل فوٹو: آؤٹ لک افغانستان
مجوزہ قانون کو منظوری کے لیے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا—فائل فوٹو: آؤٹ لک افغانستان

ماضی میں طالبان کی حکومت کی وجہ سے انتہائی قدامت پسند ملک تصور کی جانے والی جنوبی ایشیا کی ریاست افغانستان کی حکومت نے بچوں کے پیدائشی سرٹیفکیٹس پر والدہ کا نام شامل کرنے کی منظوری دے دی۔

افغانستان میں بچوں کے پیدائشی سرٹیفکیٹس پر صرف والد کا نام لکھا جاتا ہے جب کہ وہاں خواتین کی شادیوں کے دعوت ناموں اور یہاں تک کہ ان کی قبروں کے کتبوں پر بھی ان کا نام لکھنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔

بڑھتی آبادی اور بچوں سمیت والد کے ایک جیسے نام ہونے کی وجہ سے افغانستان میں حالیہ چند سال میں شناخت میں کچھ مسائل پیدا ہوئے تھے، جس کے بعد خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور کارکنان نے پیدائشی سرٹیفکیٹ میں والدہ کا نام شامل کرنے کی مہم شروع کی تھی۔

افغانستان میں کچھ عرصے سے ’میرا نام کہاں ہے‘ کے ہیش ٹیگ سے مہم جاری تھی اور اسی مہم کے دوران افغانستان کی خواتین سے امور سے متعلق کمیٹی کی چیئرمین و رکن پارلیمنٹ ناہید فرید نے برتھ قوانین میں ترمیم کا مجوزہ بل پیش کیا تھا۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق ناہید فرید کی جانب سے پیش کیے گئے مجوزہ قانون میں برتھ سرٹیفکیٹ میں والدہ کا نام بھی شامل کرنے کرنے کی تجویز دی گئی تھی اور مذکورہ بل پر افغان کابینہ نے یکم ستمبر کو اجلاس منعقد کیا تھا۔

نائب صدر محمد سرور دانش کی سربراہی میں قانونی معاملات کی کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا، جس میں ناہید فرید کی جانب سے پیش کیے گئے مجوزہ قانون کا جائزہ لے کر اس کی منظوری دے دی گئی۔

کابینہ کمیٹی نے آبادی کے اندراج کے قوانین میں ترمیم کی منظوری دیتے ہوئے پیدائشی سرٹیفکیٹ میں والدہ کے نام کو شامل کرنے کی اجازت دی۔

کابینہ کمیٹی کی اجازت کے بعد اب مذکورہ بل کو پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا، جہاں سے منظوری کے بعد ملک کے صدر بل پر دستخط کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت شناختی کارڈ سے 'جنس‘ کا خانہ ختم کرنے کی خواہاں

اگرچہ حکومت نے پیدائشی سرٹیفکیٹ میں والدہ کا نام شامل کرنے کی اجازت دے دی ہے تاہم خیال کیا جا رہا ہے کہ پارلیمنٹ میں مجوزہ بل کو قدامت پسند سیاستدانوں کی جانب سے مخالفت کا سامنا ہوگا اور عین ممکن ہے کہ بل کو حکومت منظور کرانے میں ناکام بھی ہوجائے۔

حکومت کی کوشش ہے کہ مذکورہ بل کو رواں ماہ 21 ستمبر تک جاری رہنے والے پارلیمنٹ کے اجلاس سے منظور کروائے۔

جہاں حکومت نے پیدائشی سرٹیفکیٹس میں والدہ کا نام شامل کرنے کی اجازت دی ہے، وہیں اس فیصلے پر ماضی میں طالبان کے دور میں اہم عہدوں پر تعینات رہنے والے افراد نے تنقید کرتے ہوئے مذکورہ قانون کو یورپ اور امریکا کا قانون بھی کہا ہے۔

دوسری جانب حکومتی فیصلے پر خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور رہنماؤں نے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ فیصلے سے خواتین کو صدیوں بعد اپنی شناخت ملے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں