نیدرلینڈ کی حکومت شناختی کارڈ سے 'جنس‘ کا خانہ ختم کرنے کی خواہاں

اپ ڈیٹ 06 جولائ 2020
خاتون وزیر اینگرڈ وان ایگلزبوفن نے ترمیم کے لیے پارلیمنٹ میں تجویز پیش کردی—فائل فوٹو: گورنمنٹ نیدرلینڈ
خاتون وزیر اینگرڈ وان ایگلزبوفن نے ترمیم کے لیے پارلیمنٹ میں تجویز پیش کردی—فائل فوٹو: گورنمنٹ نیدرلینڈ

یورپی ملک نیدرلینڈ کی حکومت کے کچھ ارکان کی خواہش ہے کہ ملک میں جاری کیے جانے والے شناختی کارڈز سے 'جنس‘ کے خانے کو ختم کردیا جائے۔

جرمنی سمیت یورپ کے چند ممالک نے گزشتہ چند سالوں کے دوران شناختی کارڈز میں 'جنس‘ کے اندراج کے حوالے سے کچھ ترمیم کی ہے اور اب وہاں 'جنس‘ کے خانوں میں مرد اور عورت کے علاوہ مخنث بھی لکھا جاتا ہے۔

دنیا کے بیشتر ممالک کے شناختی کارڈز اور پاسپورٹس میں اب بھی 'جنس‘ کے خانے میں صرف 2 ہی جنس یعنی مرد اور خاتون کا اندراج کیا جاتا ہے۔

تاہم گزشتہ چند سال سے دنیا بھر میں شناختی کارڈز اور پاسپورٹس میں 'جنس‘ کے خانوں میں روایتی مرد و خواتین کے علاوہ تیسری جنس (مخنث) کو شامل کرنے کی تحریکیں چل رہی ہیں۔

پاکستان کی سپریم کورٹ نے بھی 2009 میں حکومت کو مرد اور خاتون کے علاوہ مخنث افراد کو بھی پیدائشی سرٹیفکیٹ، شناختی کارڈز اور پاسپورٹس جاری کرنے کا حکم دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں پہلی بار مخنث شخص کو پاسپورٹ کا اجراء

اسی طرح بھارت، آسٹریلیا، کینیڈا اور نیپال سمیت دیگر چند ممالک میں بھی قانونی طور پر اب شناختی کارڈز اور پاسپورٹس پر مرد و خواتین کے علاوہ تیسری جنس کا اندراج بھی کیا جاتا ہے۔

تاہم ہالینڈ کی حکومت کے کچھ ارکان چاہتے ہیں کہ شناختی کارڈز سے 'جنس‘ کے خانے کو ہی ختم کردیا جائے۔

اس وقت نیدرلینڈ کے شناختی کارڈ میں صرف مرد و خواتین کی جنس کا اندراج ہوتا ہے—فوٹو: پرائیویسی انٹرنیشنل
اس وقت نیدرلینڈ کے شناختی کارڈ میں صرف مرد و خواتین کی جنس کا اندراج ہوتا ہے—فوٹو: پرائیویسی انٹرنیشنل

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق نیدرلینڈ کی خاتون وزیر تعلیم و ثقافت نے حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ کو شناختی کارڈ کے قوانین میں ترمیم کرنے سے متعلق ایک مجوزہ خط بھیجا ہے، جس میں 'جنس‘ کے خانے کو ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ وزیر تعلیم و ثقافت کی جانب سے بھجوائے گئے خط کی کاپی خبر رساں ادارے نے دیکھی، جس میں 'جنس‘ کے خانے کو شناختی کارڈ میں شامل کرنے کو غیر اہم قرار دیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق خط میں وزیر تعلیم و ثقافت نے لکھا کہ شناختی کارڈز میں 'جنس‘ کا خانہ غیر ضروری ہے اور مذکورہ معلومات اضافی ہیں، اسے ختم کردینا چاہیے اور اپنی جنس سے متعلق ہر کسی کو خود فیصلہ کرنے کا اختیار ہونا چاہیے۔

مزید پڑھیں: خواجہ سراؤں کے شناختی کارڈ کا معاملہ 15 روز میں حل کرنے کا حکم

وزیر تعلیم و ثقافت اینگرڈ وان ایگلزبوفن کا خط میں کہنا تھا کہ اگر یورپی یونین قوانین کے مطابق 'جنس‘ کا خانہ شامل کرنا لازمی ہے تو اس حوالے سے یونین سے قوانین کو تبدیل کرنے کی اپیل کی جائے گی۔

خاتون وزیر نے شناختی کارڈز میں 'جنس‘ کے خانوں میں ترمیم کے حوالے سے چند ممالک کی مثالیں بھی پیش کیں اور کہا کہ اگر پارلیمنٹ ترمیم کرے تو 2024 اور 2025 سے شناختی کارڈز سے 'جنس‘ کا خانہ ختم کردیا جائے گا۔

اگر نیدرلینڈ کی پارلیمنٹ مجوزہ خط پر قانون سازی کرکے اس کی منٖظوری دیتی ہے تو ہالینڈ یورپ کا وہ پہلا ملک بن جائے گا، جہاں پر شناختی کارڈز سے 'جنس‘ کے خانے کا مکمل خاتمہ ہوگا۔

حکومت کی مجوزہ قانون سازی پر مخلوط الجنس افراد کے حقوق پر کام کرنے والی تنظیموں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اسے خوش آئندہ قرار دیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں