کورونا سے صحتیاب مریضوں میں ہفتوں بعد بھی پھیپھڑوں کو نقصان پہنچنے کا انکشاف

07 ستمبر 2020
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — اے ایف پی فائل  فوٹو
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — اے ایف پی فائل فوٹو

نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 نظام تنفس کو متاثر کرتی ہے جس کے دوران اکثر مریضوں کو خشک کھانسی اور سانس لینے میں مشکلات کے ساتھ بخار کا سامنا ہوتا ہے۔

یعنی اس سے پھیپھڑے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور اب سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ کووڈ 19 کے صحتیاب مریضوں کو ہفتوں بعد بھی پھیپھڑوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے جبکہ سانس نہ لینے کی شکایت اور کھانسی جیسی علامات کا سامنا ہوسکتا ہے۔

کورونا وائرس سے جسمانی صحت پر طویل المعیاد اثرات کے حوالے سے محققین کی جانب سے کئی ماہ سے خدشات سامنے آرہے ہیں، یہاں تک معتدل حد تک بیمار افراد کی جانب سے کئی ہفٹوں بلکہ مہینوں تک علامات کو رپورٹ کیا جاتا ہے۔

اب آسٹریا میں ہونے والی ایک نئی تحقیق میں کورونا وائرس سے متاثر ہوکر ہسپتال میں زیرعلاج رہنے والے ایسے مریضوں کا جائزہ لیا گیا تھا جو صحتیاب ہوگئے تھے۔

تحقیق کے ابتدائی نتائج میں انکشاف ہوا کہ ہسپتال سے فارغ ہونے کے 6 ہفتوں بعد بھی 88 فیصد مریضوں کے پھیپھڑوں میں شیشے پر غبار جیسا پیٹرن دریافت ہوا، جس سے عضو کو نقصان پہنچنے کا عندیہ ملتا ہے، جبکہ 47 فیصد نے سانس لینے میں مشکلات کی شکایت کی۔

12 ہفتوں بعد یہ شرح بالترتیب 56 اور 39 فیصد رہی۔

انسبروک یونیورسٹی کی تحقیق میں شامل ڈاکٹر سبینا شانک نے بتایا 'کووڈ 19 سے صحتیاب ہونے والے افراد کو ہفتوں بعد بھی پھیپھڑوں کے افعال میں تنزلی کا سامنا ہوتا ہے'۔

انہوں نے مزید بتایا 'وقت کے ساتھ کسی حد تک بہتری دیکھنے میں آتی ہے'۔

نتائج میں عندیہ دیا گیا کہ اگرچہ کووڈ 19 سے ریکوری کا عمل طویل ہوسکتا ہے، مگر یہ بیماری وقت کے ساتھ پھیپھڑوں میں خراشیں بڑھانے کے عمل کو متحرک نہیں کرتی۔

اس تحقیق کے نتائج یورپین ریسیپٹری سوسائٹی انٹرنیشنل کانگریس میں پیش کیے گئے۔

تحقیق میں شامل 86 میں سے 18 مریض آئی سی یو میں زیرعلاج رہے تھے جبکہ مریضوں کی اوسط عمر 61 سال تھی۔

ان میں سے 60 فیصد سے زیادہ مرد تھے جبیکہ 50 فیصد کے قریب تمباکو نوشی کے عادی تھے جبکہ 65 فیصد زیادہ جسمانی وزن یا موٹاپے کے شکار تھے۔

ان مریضوں کے مختلف ٹیسٹ کیے گئے، پھیپھڑوں کے افعال کی جانچ پڑتال اور طبی معائنہ ڈسچارج کے 6 ہفتوں بعد کیا گیا اور یہ عمل 12 ہفتوں بعد پھر دہرایا گیا۔

محققین نے دریافت کیا کہ 24 مریضوں پھیپھڑوں میں سانس لینے کی صلاحیت 6 ہفتوں بعد کسی عام فرد کے مقابلے میں 80 فیصد تک گھٹ چکی تھی اور 12 ہفتوں بعد 16 مریضوں میں اسے دریافت کیا گیا۔

محققین نے متعدد کیسز میں دل کو نقصان پہنچنے کے آثار بھی دریافت کیا تاہم ان میں وقت کے ساتھ بہتری آئی۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ اگرچہ آئی سی یو میں رہنے والے مریضوں کے پھیپھڑوں کو زیادہ نقصان پہنچا تھا مگر پھیپھڑوں کے افعال میں بہتری کی شرح دیگر مریضوں جتنی ہی تھی۔

محققین نے اس امکان کو مسترد نہیں کیا کہ مریضوں میں پہلے سے پھیپھڑوں کے مسائل ہوسکتے ہیں مگر ان کا کہنا تھا کہ سی ٹی اسکینز میں بتدریج پھیپھڑوں کے افعال میں بہتری کو دیکھا گیا۔

انہوں نے کہا کہ کووڈ 19 کے طویل المعیاد اثرات ضروری نہیں کہ حیران کن ہو کیونکہ ماضی میں بھی سارس کورونا وائرس کے مریضوں میں طویل المعیاد طبی مسائل کو دریافت کیا گیا تھا۔

اس تحقیق پر کام ابھی بھی جاری ہے اور اب ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے 24 ہفتوں بعد پھر مریضوں کے ٹیسٹ کرکے ان کی صحت کا جائزہ لیا جائے گا۔

اس سے قبل مارچ کے وسط میں ہاکنگ کانگ میں طبی ماہرین نے دریافت کیا تھا کہ نئے نوول کورونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے افراد کے پھیپھڑے کمزوری کا شکار ہوسکتے ہیں اور کچھ افراد کو تیز چلنے پر سانس پھولنے کا مسئلہ ہوسکتا ہے۔

ساﺅتھ چائنا مارننگ پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق ہانگ کانگ ہاسپٹل اتھارٹی نے یہ نتیجہ کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 سے صحت یاب ہونے والے ابتدائی مریضوں کا جائزہ لینے کے بعد نکالا۔

ڈاکٹروں نے دریافت کیا کہ 12 میں سے 2 سے تین مریضوں کے پھیپھڑوں کی گنجائش میں تبدیلیاں آئیں۔

ہسپتال کے انفیکشیز ڈیزیز سینٹر کے میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر اوئن تسانگ تک ین نے ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا 'ان افراد کا سانس کچھ تیز چلنے پر پھول جاتا ہے، جبکہ مرض سے مکمل نجات کے بعد کچھ مریضوں کے پھیپھڑوں کے افعال میں 20 سے 30 فیصد کمی آسکتی ہے'۔

مارچ میں ہی امریکا کے جارج واشنگٹن یونیورسٹی ہاسپٹل کی جانب سے کورونا وائرس کے ایک مریض کے پھیپھڑوں کی ایک ویڈیو یوٹیوب پر شیئر کی گئی تھی، جس میں پھیپھڑوں کے صحت مند ٹشوز کو نیلے جبکہ وائرس سے متاثر ٹشوز کو زرد رنگ میں دکھایا گیا ہے۔

ہسپتال کے چھاتی کی سرجری کے شعبے کے سربراہ ڈاکٹر کیتھ مورٹمین نے بتایا 'پھیپھڑوں کے وائرس سے متاثرہ اور صحت مند ٹشوز کا امتزاج چونکا دینے والا ہے، درحقیقت اس کو دیکھنے کے بعد یہ سمجھنے کے لیے نام کے ساتھ طبی ڈگری کی ضرورت نہیں کہ پھیپھڑوں کو ہونے والا نقصان کسی ایک حصے تک محدود نہیں، درحقیقت دونوں پھیپھڑوں کو شدید نقصان پہنچتا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ اس سے کووڈ 19 سے صحت یاب ہونے والے افراد کے پھیپھڑوں کو طویل المعیاد بنیادوں پر نقصان پہنچنے کا امکان پیدا ہوتا ہے۔

مئی میں جریدے جرنل سیل ریسرچ میں شائع تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کووڈ 19 سے صحتیاب ہونے والے افراد کے پھیپھڑوں کی گہرائی میں یہ وائرس موجود ہوسکتا ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ ممکنہ طور پر اسی وجہ سے کچھ مریضوں میں صحتیابی کے بعد اس وائرس کی دوبارہ تشخیص ہوتی ہے۔

چین کی آرمی میڈیکل یونیورسٹی کی اس تحقیق میں شامل سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ اس سے پہلی بار پھیپھڑوں میں اس وائرس کے ذرات موجود رہنے کے شواہد ملتے ہیں اور وہ بھی ایک ایسے مریض میں، جس کے 3 مسلسل ٹیسٹ نیگیٹو آئے تھے۔

اس تحقیق کے نتائج ایک 78 سالہ مریضہ کے پوسٹمارٹم سے مرتب کیے گئے جو کورونا وائرس کا شکار ہوئی تھیں اور ان کا علاج ہوا۔

علاج کے بعد وہ صحتیاب ہوگئیں اور 3 بار ٹیسٹوں میں نیگیٹو نتائج سامنے آئے تھے مگر ایک دن بعد اچانک حرکت قلب بند ہونے سے ان کی موت واقع ہوگئی۔

موت کے بعد پوسٹمارٹم میں اہم اعضا جیسے دل، جگر اور جلد پر وائرس کے آثار نہیں ملے مگر اس کی کچھ اقسام پھیپھڑوں کی گہرائی میں دریافت کی گئیں۔

تبصرے (0) بند ہیں