عرب لیگ: وزرا کا یو اے ای ۔ اسرائیل معاہدے کی مذمت نہ کرنے پر اتفاق

اپ ڈیٹ 10 ستمبر 2020
عرب لیگ نے یو اے ای ۔ اسرائیل معاہدے کی مذمت کے حوالے سے قرارداد کے مسودے کو مسترد کردیا، سفارتی ذرائع — فائل فوٹو / اے ایف پی
عرب لیگ نے یو اے ای ۔ اسرائیل معاہدے کی مذمت کے حوالے سے قرارداد کے مسودے کو مسترد کردیا، سفارتی ذرائع — فائل فوٹو / اے ایف پی

فلسطینی رہنما فلسطینی ریاست کے لیے سعودی عرب کی حمایت کی تجدید میں کامیاب ہوگئے لیکن عرب لیگ کو متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان معاہدے کی مذمت کے لیے منانے میں ناکام رہے۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق وزرائے خارجہ کی ویڈیو کانفرنس کے دوران فلسطینی قیادت نے امریکا کی ثالثی میں 13 اگست کو ہونے والے اس معاہدے سے متعلق متحدہ عرب امارات پر تنقید میں نرمی دکھائی تاکہ عرب ممالک کی حمایت حاصل کی جاسکے ، تاہم اس کا کوئی فائدہ نہ ہوا۔

عرب لیگ کے معاون سیکریٹری جنرل حُسام ذکی نے صحافیوں کو بتایا کہ 'اس معاملے سے متعلق سنجیدہ اور جامع بات چیت ہوئی جس میں کچھ وقت لگا، لیکن آخر میں فلسطینی قیادت کی جانب سے مجوزہ قرارداد کے مسودے پر اتفاق نہ ہوسکا۔'

فلسطین کے سفارتی ذرائع کے مطابق عرب لیگ نے یو اے ای ۔ اسرائیل معاہدے کی مذمت کے حوالے سے قرارداد کے مسودے کو مسترد کردیا۔

فلسطین کے سفیر محمد اقلوک نے مقامی نیوز ایجنسی 'مان' کو بتایا کہ فلسطین اور عرب ممالک نے 2002 کے عرب لیگ معاہدے میں دو ریاستی حل کے لیے زور دینے پر اتفاق کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: اسرائیل کے مرکزی بینک کے سربراہ کی قیادت میں وفد کا دورہ متحدہ عرب امارات

انہوں نے کہا کہ تین گھنٹے کی بات چیت کے بعد فلسطین اور عرب ممالک نے اسرائیل ۔ یو اے ای معاہدے کی واضح مذمت شامل نہ کرنے پر اتفاق کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ کچھ عرب ریاستوں نے اس معاہدے کو قانونی شکل دینے کے لیے چند شقیں شامل کرنے کی کوشش کی، تاہم انہوں نے ان ممالک کے نام نہیں بتائے۔

محمد اقلوک نے کہا کہ 'اس پر ردعمل میں فلسطین نے معاہدے کی مذمت کے لیے قرارداد کا مسودہ پیش کیا، تاہم عرب ممالک نے اسے مسترد کردیا۔'

قبل ازیں فلسطین کے وزیر خارجہ ریاض المالکی نے عرب ممالک سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ یو اے ای ۔ اسرائیل معاہدے کو مسترد کردیں۔

مزید پڑھیں: اسرائیلی، امریکی وفد کی معاہدے کو حتمی شکل دینے کیلئے متحدہ عرب امارات آمد

واضح رہے کہ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات نے 13 اگست کو تعلقات قائم کرنے کے لیے معاہدہ کرنے کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد امریکی صدر کے ساتھیوں سمیت اسرائیلی وفد نے متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا تھا۔

اسرائیلی اور امریکی وفد کے دورے میں مختلف شعبوں میں تعلقات کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔

بعد ازاں اسرائیل اور امریکی وفد پہلی مرتبہ اسرائیلی کمرشل پرواز کے ذریعے متحدہ عرب امارات پہنچے تھے۔

امریکی اور اسرائیلی وفد نے مذاکرات کے باقاعدہ آغاز سے قبل تل ابیب سے کمرشل پرواز سے سعودی حدود سے ہوتے ہوئے براہ راست متحدہ عرب امارات کے دارالحکومت ابوظہبی پہنچ کر ایوی ایشن کی تاریخ میں نیا باب رقم کیا تھا۔

طیارے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سینئر مشیر اور داماد جیریڈ کشنر اور قومی سلامتی کے مشیر رابرٹ او برائن امریکی وفد کے سربراہ تھے جبکہ اسرائیلی ٹیم کی قیادت او برائن کے ہم منصب میر بین شبات کر رہے تھے۔

جیرڈ کشنر نے طیارے میں سوار ہونے سے قبل ایئرپورٹ پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'میں نے گزشتہ روز مغربی دیوار (یہودیوں کی مقدس عبادت کا مقام) پر دعا کی ہے کہ مسلمان اور عرب، جو پوری دنیا میں اس پرواز کو دیکھ رہے ہوں گے، وہ ماضی کو بھلا کر آگے بڑھیں گے'۔

یہ بھی پڑھیں: اسرائیلی وزیراعظم نے 2018 میں متحدہ عرب امارات کا خفیہ دورہ کیا، رپورٹ

دوسری جانب بینجمن نیتن یاہو نے کہا تھا کہ متحدہ عرب امارات کے ساتھ امریکی ثالثی میں ہونے والے معاہدے کے علاوہ اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کے لیے متعدد عرب ریاستوں کے ساتھ خفیہ بات چیت جاری ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی ریاست کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے عرب اور مسلمان رہنماؤں کے ساتھ خفیہ ملاقاتیں ہو رہی ہیں'۔

متحدہ عرب امارات کو اس معاہدے پر متعدد مسلم ممالک خصوصاً ایران اور ترکی کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

تبصرے (0) بند ہیں