نیوی کا کام ملک کا دفاع کرنا ہے، کلب بنانے کا کردار قانون میں کہاں لکھا ہے؟، عدالت

12 ستمبر 2020
اسلام آباد ہائیکورٹ میں کیس کی سماعت ہوئی—فائل فوٹو: ڈان
اسلام آباد ہائیکورٹ میں کیس کی سماعت ہوئی—فائل فوٹو: ڈان

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پاکستان نیوی سیلنگ کلب کی تعمیر کے خلاف کیس میں کہا ہے کہ نیوی کا رول (کردار) ملک کا دفاع کرنا ہے، سیلنگ یا کلب بنانے کا کردار قانون میں کہاں لکھا ہے۔

وفاقی دارالحکومت کی عدالت عالیہ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے نیوی سیلنگ کلب کی تعمیر اور نیول فارمز کے خلاف کیس کی سماعت کی اس دوران نیول چیف کی جانب سے وکیل اشتر اوصاف جبکہ نیول فارمز کے وکیل ملک قمر افضل پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران وکیل اشتراوصاف نے بتایا کہ تمام میٹنگ منٹس اور متعلقہ دستاویزات عدالت میں جمع کرائی ہیں۔

اس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ پہلے یہ بتائیں کھوکھے والے کے لیے یہ آئینی عدالت کیا کرے؟ کیا ہم یہ کہیں کہ ان کو ریگولرائز کر دیں اور کھوکھے والے کا کوئی حق نہیں؟

مزید پڑھیں: سربراہ پاک بحریہ کا عدالت میں سیلنگ کلب کی تعمیر کا دفاع

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ نیوی کا رول ملک کا دفاع کرنا ہے، ساتھ ہی انہوں نے پوچھا کہ نیوی کا سلینگ یا کلب بنانے کا رول کہاں ہے؟ قانون میں بتائیں کہاں لکھا ہے؟

اس پر اشتر اوصاف نے جواب دیا کہ دفاع کے لیے تربیت سے متعلق تمام چیزیں آتی ہیں جن میں کھیل (اسپورٹس) بھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) نے حاصر سروس ایئرمارشل کو چارج دیا، سپریم کورٹ نے ایئرمارشل کی سروس ریگولیرائز کرنے کا حکم دیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے دلائل سے لگ رہا ہے کہ پہلے سول حکومت کہے گی کہ کوئی ادارہ چلانے میں ہم فیل ہو گئے؟ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ پی آئی اے، واپڈا فیل ہوگئے اس لیے آپ کو بلا رہے ہیں؟، آپ کے دلائل سے لگ رہا ہے کہ سی ڈی اے تباہ ہو گیا۔

اس پر اشتر اوصاف نے یہ جواب دیا کہ نہیں میں ایسا کچھ نہیں کہہ رہا۔

وکیل کی بات پر چیف جسٹس نے کہا کہ سی ڈی اے نے آپ کو بطور ریگولیٹر نوٹس کیا، اس پر اشتر اوصاف نے بتایا کہ انہوں نے بھری میٹنگ میں کہا کہ ہمیں نہیں پتہ زمین کس کی ہے، اسی لیے جواب میں انہوں نے نا بھی نہیں کیا اور ہاں بھی نہیں۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ فورسز کے جو لوگ قربانیاں دیتے ہیں ہم ان کے احسان مند ہیں، آپ دو چیزوں کو مکس نہ کریں کیونکہ اس کے باوجود قانون کی خلاف ورزی نہیں ہوسکتی۔

عدالتی ریمارکس پر اشتر اوصاف کا کہنا تھا کہ ریاست پاکستان مسلح فورسز کی اس ایکٹیویٹی (سرگرمیوں) کو تسلیم کرتی ہے کیونکہ یہ تربیت کا حصہ ہے۔

اس موقع پر عدالت نے پوچھا کہ سی ڈی اے نے جتنی جگہ آپ کو اسلام آباد میں دے رکھی ہے وہ کتنی ہے؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ اس وقت مجھے نہیں پتہ وہ کتنی جگہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نیوی کلب کو سیل نہ کرنے پر حکام کے خلاف توہین عدالت کی درخواست

اس پر عدالت عالیہ کے چیف جسٹس نے کہا کہ جس وفاقی حکومت کے آپ ماتحت ہیں اس کے کس افسر نے کہاں آپ کو اجازت دی، کوئی بلڈنگ پلان، کوئی منظوری کچھ نہیں تھا اور آپ اس کا افتتاح کرنے چلے گئے، جب ریگولیٹر نے آپ کو نوٹس کردیا تو پھر آپ اس پر کیسے سرگرمیاں جاری رکھ سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا کابینہ ڈویژن نے اس سلسلے میں کوئی منظوری دی؟ اگر ایسا ہو کہ نہ آپ کے پاس نہ سی ڈی اے کے پاس کوئی منظوری کا ریکارڈ ہو تو کیا ہو گا؟

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ معاملہ قانون اور اس کی حکمرانی کے احترام کا ہے، کیا کسی نے بتایا کہ ریگولیٹر کا نوٹس آیا ہوا ہے اس کا افتتاح نہ کریں، اس پر وکیل نے کہا کہ اس حوالے سے مؤکل کی کوئی ہدایت نہیں، لہٰذا اس پر ابھی بیان نہیں دوں گا۔

وکیل کی بات پر عدالت نے کہا کہ آپ کی حد تک تو واضح ہوگیا کہ ریکارڈ آپ کے پاس نہیں، جو کچھ ہے سی ڈی اے کے پاس ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم تین، 4 فیصلے دے چکے ہیں کہ 1960 سے لیکر اب تک قانون کیا ہے، آپ کے دلائل سے لگ رہا ہے کہ اسی قسم کے فیصلوں کی وجہ سے سارے وزیراعظم آج نیب کو بھگت رہے ہیں۔

اس موقع پر نیول فارمز کے وکیل قمر افضل نے دلائل دینا شروع کیے تو چیف جسٹس نے پوچھا کہ پہلے یہ بتائیں نیول فارمز کی اسکیم کس قانون کے تحت بنی ہے؟ جس پر ملک قمر افضل نے کہا کہ نیول فارمز کا نیوی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔

وکیل کی بات پر چیف جسٹس نے پھر استفسار کیا کہ کیا نیوی نے ان کے خلاف ان کا نام استعمال کرنے پر قانونی کارروائی کی؟، اس کے جواب میں قمر افضل کا کہنا تھا کہ نیوی کے افسران یہ اسکیم چلا رہے ہیں۔

اس پر چیف جسٹس نے یہ استفسار کیا کہ کیا نیول افسر کاروبار کرسکتا ہے؟ کیا نیوی نے ان افسران کے خلاف کارروائی کی؟ اس سکیم کو چلانے کا یہ لیٹر کس نے جاری کیا ہے؟ نیوی کے پاس کیا قانون کی اتھارٹی ہے کہ وہ یہ کام کر سکتے ہیں؟

چیف جسٹس نے کہا کہ قانون کی خلاف ورزی کرکے یہ اس وردی کی عزت داؤ پر لگانے کے مترادف ہے، اس پر وکیل نے جواب دیا کہ نیوی آرڈیننس، رولز، ریگولیشنز ہیں جن کے تحت پتہ چلتا ہے نیوی نے کیسے کام کرنا ہے۔

اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ جو دلائل دیں سوچ، سمجھ کر دیں یہ اسکیم سویلین کے علاقے میں چل رہی ہے، اس عدالت نے ہاؤسنگ سوسائٹیز کے حوالے سے ایک حکم پاس کیا ہے وہ مدنظر رکھیں۔

انہوں نے کہا کہ کیا عدالت اس حکم کی خلاف ورزی پر کسی با وردی افسر کو نوٹس کریں؟ یہ ذہن میں رکھیں کہ اس کے سنگین اثرات ہو سکتے ہیں، یہ ایک کمرشل بزنس ہے، نیوی کہہ رہی ہے کہ اس کا اس سے لینا دینا نہیں۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ کا راول ڈیم کے کنارے پاکستان نیوی سیلنگ کلب سیل کرنے کا حکم

عدالت نے سوال اٹھایا کہ ایسی صورت میں کیا نیوی کے حاضر سروس افسران اس کاروبار کو کرسکتے ہیں؟

بعد ازاں عدالت نے مذکورہ معاملے کی سماعت کو پیر تک ملتوی کردیا، جہاں وکیل اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔

نیوی سیلنگ کلب کے معاملے کا پس منظر

خیال رہے کہ جولائی کے مہینے میں کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے پاکستان نیوی سیلنگ کلب کو اس کی غیرقانونی اور غیرمجاز تعمیر کے لیے نوٹس جاری کیا تھا۔

سی ڈی اے کے بلڈنگ کنٹرول سیکشن کی جانب سے جاری کردہ نوٹس میں پاکستان نیوی سیلنگ کلب کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ کلب کی عمارت کی غیرقانونی اور غیرمجاز تعمیر کو فوری طور پر روکے۔

نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ 'اتھارٹی کے نوٹس میں ایک مرتبہ پھر یہ آیا کہ غیرقانونی تعمیراتی سرگرمیاں پھر بحال کردی گئی ہیں اور کلب کو فعال کردیا گیا ہے، یہ سی ڈی اے (بائی لاز) کی صریح خلاف ورزی ہے جسے فوری طور پر روکنے کی ضرورت ہے'۔

ساتھ ہی یہ بھی لکھا گیا تھا کہ 'آپ کو یہ ہدایت کی جاتی ہے کہ غیرقانونی/غیرمجاز تعمیراتی کام اور پاکستان نیوی سیلنگ کلب کی فعال سرگرمیوں کو فوری طور پر روکیں'۔

بعد ازاں راول جھیل کے کنارے تعمیرات کے معاملے میں پاکستان نیول فارمز سے متعلق شکایت کنندہ زینت سلیم کی عدالت عالیہ میں دائر کردہ درخواست پر معاملہ مزید ابھرا تھا اور پھر 16 جولائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے 'غیرقانونی تعمیرات' کے خلاف درخواست پر چیف آف نیول اسٹاف، اٹارنی جنرل برائے پاکستان اور کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کو نوٹسز جاری کیے تھے۔

مزید پڑھیں: جو درخواست دیکھو ایسا لگتا ہے قانون صرف کمزور کیلئے ہے، عدالت

جس کے بعد 23 جولائی کی سماعت میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے راول ڈیم کے کنارے غیرقانونی تعمیرات کے خلاف کیس میں پاکستان نیوی سیلنگ کلب کو سیل کرنے کا حکم دیتے ہوئے معاملہ وفاقی کابینہ کے سامنے رکھنے کی ہدایت کردی تھی۔

عدالتی حکم کے بعد 30 جولائی کو کیس کی جو سماعت ہوئی تھی اس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیول حکام کی جانب سے نیوی سیلنگ کلب کی تعمیر پر جواب نہ جمع کروانے پر برہمی کا اظہار کیا تھا۔

علاوہ ازیں 6 اگست کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی جس میں کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین عامر علی احمد، سیکریٹری کابینہ ڈویژن احمد نواز سکھیرا اور چیف آف نیول اسٹاف ظفر محمود عباسی کے خلاف نیوی سیلنگ کلب سیل کرنے کے عدالتی احکامات کی خلاف ورزی پر توہین عدالت کی کارروائی کی استدعا کی گئی تھی۔

بعد ازاں 7 اگست کو مرکزی درخواست پر سماعت کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیوی سیلنگ کلب کی نئی رکنیت کے خلاف حکم امتناع جاری کرتے ہوئے بحری حکام کو 19 اگست تک جواب داخل کرنے کی ہدایت کی تھی۔

19 اگست کو ہونے والی سماعت میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے تھے کہ یہاں پر قانون کی کوئی حکمرانی نہیں ہے، ہر روز ایک نئی درخواست آتی ہے کہ قانون پر عمل درآمدا نہیں ہورہا۔

جس کے بعد چیف آف نیول اسٹاف (سی این ایس) نے ’پرتعیش کلب‘ کی تعمیر سے متعلق عدالت میں اپنا جواب جمع کروایا تھا جس میں انہوں نے اس کلب کی تعمیر کا یہ کہتے ہوئے دفاع کیا تھا کہ یہ ایک اسپورٹس کی سہولت گاہ ہے جسے ماحولیاتی ماہرین سے منظوری لینے کے بعد وفاقی حکومت کی ہدایت پر قائم کیا گیا۔

چیف آف نیول اسٹاف ظفر محمود عباسی نے وکیل اشتر اوصاف علی اور راجا اظہار الحسن کے توسط سے جمع کروائی گئی تحریری رپورٹ میں کہا تھا کہ ’نیشنل واٹر اسپورٹس سینٹر (این ڈبلیو ایس سی) ’روایتی لحاظ سے کلب ہے اور نہ ہی کمرشل ادارہ ہے‘۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ’چیف آف نیول اسٹاف نے سابق افسر کو پاکستان میں پانی کے کھیلوں کی تمام سرگرمیوں بشمول بادبانی، کشتی رانی، واٹر اسکینگ اور پیڈل سے چلنے والی کشتیوں کا پیٹرن ان چیف مقرر کیا تھا'۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں