سیلنگ کلب کیس: جواب جمع نہ کروانے پر عدالت نیول حکام پر برہم

اپ ڈیٹ 31 جولائ 2020
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا کبھی سی ڈی اے نے چھوٹے کھوکھے ہٹاتے ہوئے اٹارنی جنرل کی رائے لی ہے — فائل فوٹو: فیس بک
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا کبھی سی ڈی اے نے چھوٹے کھوکھے ہٹاتے ہوئے اٹارنی جنرل کی رائے لی ہے — فائل فوٹو: فیس بک

اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیول حکام کی جانب سے راول جھیل کے کنارے نیوی سیلنگ کلب کی تعمیر پر جواب نہ جمع کروانے پر برہمی کا اظہار کیا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) اور نیول حکام کی جانب سے پانی کے ذخیرے کے کنارے تعمیرات پر تسلی بخش جواب نہ جمع کروانے پر گزشتہ ہفتے کلب کو سیل کرنے کا حکم دیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جمعرات کو ہونے والی سماعت میں یہ بات سامنے آئی کہ نیول حکام نے جواب جمع نہیں کروایا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ مسلح افواج ایک قابل احترام ادارہ ہے لیکن یہ بات ان کے عمل سے ظاہر ہونی چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ کا راول ڈیم کے کنارے پاکستان نیوی سیلنگ کلب سیل کرنے کا حکم

عدالت کو بتایا گیا کہ سی ڈی اے نے کلب سے متعلق سمری وفاقی کابینہ کو ارسال کردی ہے اور اس حوالے سے اٹارنی جنرل سے بھی رائے طلب کرلی گئی ہے۔

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا کبھی سی ڈی اے نے چھوٹے کھوکھے ہٹاتے ہوئے اٹارنی جنرل کی رائے لی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدالت نے کسی ادارے سے کبھی بھی تعمیرات کے بعد منظوری لینے کا نہیں کہا بلکہ معاملہ مناسب کارروائی کے لیے کابینہ کو بھجوایا گیا تھا۔

عدالت نے کلب کی تعمیرات کے حوالے سے نیول چیف سے بھی تفصیلی جواب طلب کرتے ہوئے سماعت 7 اگست تک کے لیے ملتوی کردی۔

مزید پڑھیں: راول جھیل پر 'غیرقانونی' تعمیرات کا معاملہ، پاک بحریہ کے سربراہ کو نوٹس، تحریری جواب طلب

یاد رہے کہ 23 جولائی کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے راول ڈیم کے کنارے غیرقانونی تعمیرات کے خلاف کیس میں پاکستان نیوی سیلنگ کلب کو سیل کرنے کا حکم دیتے ہوئے معاملہ وفاقی کابینہ کے سامنے رکھنے کی ہدایت کی تھی۔

حکم نامے میں عدالت نے کہا تھا کہ سی ڈی اے کے مطابق راول جھیل کے کنارے کلب کی الاٹمنٹ ہوئی نہ ہی تعمیر کی اجازتٓ دی گئی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم نامے میں مزید کہا تھا کہ بادی النظر میں راول جھیل کنارے کلب کی تعمیر غیر قانونی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کا مختصر حکم نامہ

نیوی کلب سیل کرنے سے متعلق مختصر حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ ڈاکٹر شاہد محمود ممبر (پلاننگ) کیپٹل اتھارٹی 16 جولائی 2020 کو پیش ہوئے تھے، ان سے پوچھا گیا تھا کہ پاکستان نیوی کی جانب سے کمرشل بلڈنگ کی تعمیر کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارتی آرڈیننس 1960 سے منظوری /این او سی حاصل کیا گیا یا نہیں۔

عدالت عالیہ نے حکم نامے میں کہا تھا کہ ابتدائی طور پر وہ سوال کا جواب دینے میں ہکچکچائے بعدازاں انہوں نے بتایا کہ کوئی منظوری نہیں لی گئی تھی اور اس حوالے سے کوئی اراضی مختص نہیں کی گئی تھی۔

فیصلے میں کہا گیا کہ یہ علاقہ ماحولیاتی طور پر حساس ہے اور یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ انوائرمینٹل پروٹیکشن ایکٹ، 1997 کے تحت غیر قانونی عمارت کی تعمیر شروع کرنے سے قبل ضروری اقدامات کو پورا نہیں کیا گیا تھا جسے کلب اور کمرشل مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جارہا ہے۔

اس میں مزید کہا گیا کہ کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے دیا گیا بیان انتہائی تشویشناک ہے جو قانون کی حکمرانی اور ماحولیاتی طور پر حساس علاقے کو نقصان سے بچاؤ سے متعلق سنگین سوالات اٹھاتا ہے۔

حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی اپنے قانونی فرائض ادا کرنے میں ناکام ہوگئی یا یہ مطمئن ہے، عدالت نے کہا کہ کسی کو بھی قانون توڑنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، کوئی قانون سے بالاتر نہیں اور ہر شہری کے ساتھ یکساں سلوک کیا جانا چاہیے۔

یہ بھی دیکھیں: راول جھیل میں مبینہ طورپرزہریلے موادکی آمیزش

اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ یہ مستقل طور پر دیکھا گیا ہے کہ کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور دیگر ایجنسیز کی جانب سے عام شہریوں کے خلاف ایکشن لینا معمول بن گیا جن کے پاس اثرانداز ہونے کے ذرائع نہیں ہیں جبکہ مراعات یافتہ افراد اور اشرافیہ کے ساتھ مختلف سلوک کیا جارہا ہے۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ یہ آئین کے تحت ایک جمہوری حکومت کے لیے ناقابل قبول ہے جو بنیادی حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ عدالت نے کہا کہ یہ واضح ہے کہ متعلقہ اراضی کا قبضہ اور عمارت کی تعمیر غیرقانونی اور نافذ کردہ قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ لہذا یہ حکم دیا جاتا ہے آئندہ سماعت تک وفاقی حکومت، سیکریٹری کابینہ اور چیئرمین کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ذریعے کلب کی حدود کو سیل کریں گے۔

مختصر حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ سیکریٹری کابینہ ڈویژن کو وفاقی کابینہ کے آئندہ اجلاس میں یہ معاملہ پیش کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے کیونکہ نافذ کردہ قوانین پر عملدرآمد نہیں کیا گیا اور یہ صرف عام شہریوں کے لیے ہیں۔

عدالت نے کہا کہ یہ مختلف سلوک ناقال قبول ہے اور گزشتہ ایک دہائی سے معمول بن چکا ہے، کابینہ کی جانب سے غور کے بعد سیکریٹری کابینہ ڈویژن 30 جولائی 2020 کو یا اس سے قبل عدالت میں رپورٹ جمع کرائیں گے جس میں عدالت کو کابینہ کی جانب سے نافذ کردہ قوانین پر عملدرآمد کی غیر معمولی حالت سے متعلق فیصلے سے آگاہ کیا جائے جو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی وجہ بنتے ہیں۔

مزید پڑھیں: بنی گالہ میں 20 برس کی تعمیرات کا ریکارڈ طلب

علاوہ ازیں حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ عدالت کی جانب سے پہلے ہی ڈیکلیئر کیا جاچکا ہے کہ ' بی این پی (پرائیویٹ) لمیٹڈ وی، کیپٹل اتھارٹی ' [2017 پی ایل ڈی 81 اسلام ] کیس میں چیئرمین کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور بورڈ کے اراکین قانون پر عملدرآمد اور اس کے نفاذ میں ناکامی کے مشترکہ طور پر ذمہ دار ہیں۔

عدالت نے سی ڈی اے کے چیئرمین اور بورڈ کے اراکین کو علیحدہ علیحدہ حلف نامے جمع کرانے کی ہدایت کی کہ وہ وضاحت دیں کہ کارروائی کا حکم کیوں نہیں دیا، اس میں بادی النظر میں قانونی ذمہ داریوں کی سراسر خلاف ورزی کی گئی۔

حکم نامے میں عدالت نے چیئرمین کپپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور سیکریٹری کابینہ کو متعلقہ رپورٹس رجسٹرار کے پاس جمع کرانے کی ہدایت کی۔

نیوی سیلنگ کلب کا معاملہ

خیال رہے کہ کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے پاکستان نیوی سیلنگ کلب کو اس کی غیرقانونی اور غیرمجاز تعمیر کے لیے نوٹس جاری کیا تھا۔

سی ڈی اے کے بلڈنگ کنٹرول سیکشن کی جانب سے جاری کردہ نوٹس کے مطابق پاکستان نیوی سیلنگ کلب کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ کلب کی عمارت کی غیرقانونی اور غیرمجاز تعمیر کو فوری طور پر روکے۔

نوٹیفکیشن کے مطابق 'اتھارٹی کے نوٹس میں ایک مرتبہ پھر یہ آیا کہ غیرقانونی تعمیراتی سرگرمیاں پھر بحال کردی گئی ہیں اور کلب کو فعال کردیا گیا ہے، یہ سی ڈی اے (بائی لاز) کی صریح خلاف ورزی ہے جسے فوری طور پر روکنے کی ضرورت ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد: سی ڈی اے کے نئے ضمنی قوانین سے غیرقانونی عمارتوں کے مالکان کو فائدہ ہوگا

ساتھ ہی یہ بھی لکھا گیا کہ 'آپ کو یہ ہدایت کی جاتی ہے کہ غیرقانونی/غیرمجاز تعمیراتی کام اور پاکستان نیوی سیلنگ کلب کی فعال سرگرمیوں کو فوری طور پر روکیں'۔

نوٹس میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ 'اگر اس پر عمل نہیں کیا جاتا تو سی ڈی اے آپ کے خطرے اور قیمت پر غیرقانونی/غیرمجاز اسٹرکچر کو زبردستی ہٹانے/منہدم کرنے سے متعلق کارروائی کرے گی'۔

ادھر ماہر ماحولیات ڈاکٹر محمد عرفان خان نے ڈان کو بتایا تھا کہ پینے کے پانی کے ذخائر راول جھیل کو اس طرح کی سرگرمیوں کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا تھا کہ اس کے علاوہ سماجی اور ماحولیاتی اثرات کے جائزے کے ساتھ اس طرح کے منصوبے قائم نہیں کیے جاسکتے، یہ پاکستان ماحولیاتی تحفظ ایکٹ، ابتدائی ماحولیاتی امتحان اور ماحولیاتی اثرات کے جائزے کے ضوابط 2000 کے پاک-ای پی اے جائزے کی شق 12 کی سراسر خلاف ورزی ہے۔

ڈاکٹر عرفان خان کا کہنا تھا کہ راول ڈیم کو ڈیم کہا جاسکتا ہے لیکن یہ تربیلا اور منگلا ڈیم کی طرح نہیں ہیں، اس جھیل میں موجود پانی کو پینے کے لیے استعمال کیا جاتا اور سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق ذخائر میں موٹربوٹس تک کی ممانعت ہے۔

دوسری جانب پاکستان نیوی کے ایک سینئر عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ نیوی غور و خوص کے بعد جواب دے گی لیکن ساتھ ہی وہ بولے کہ سیلنگ کلب 1990 کی دہائی سے فعال ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سیلنگ کلب میں غوطہ خوروں کی تربیت ہوتی ہے اور وہ شمالی علاقوں اور آزاد جموں و کشمیر میں ریسکیو آپریشن میں حصہ لیتے ہیں کیونکہ ملک کے شمال میں اس طرح کی یہ واحد سہولت ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ کلب کو گزشتہ سال ستمبر میں سی ڈی اے کی جانب سے نوٹس موصول ہوا تھا اور اس کے جواب میں اتھارٹی کو بتایا گیا تھا کہ سہولیات میں جدت لانے کے لیے تعمیر کی جارہی ہے۔

عہدیدار کا کہنا تھا کہ وہ آئندہ مہینوں میں جہاز رانی کے مقابلے اور ایک ٹورنامنٹ منقعد کرنے کا ارادہ کر رہے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں