'جنسی استحصال کا شکار افراد کے کنوارے پن کو جانچنے کا ٹیسٹ ختم کردیا جائے گا'

اپ ڈیٹ 12 ستمبر 2020
لاہور ہائیکورٹ میں جواب جمع کروایا گیا—فائل فوٹو: وکی میڈیا کامنز
لاہور ہائیکورٹ میں جواب جمع کروایا گیا—فائل فوٹو: وکی میڈیا کامنز

لاہور: صوبائی صحت حکام نے لاہور ہائیکورٹ کو آگاہ کیا ہے کہ جنسی استحصال کا شکار لوگوں کی جانچ کے لیے پرانے طریقہ کار دو انگلیوں کے ٹیسٹ (ٹی ایف ٹی) کی شہادتی قدر محدود ہے اور اسے میڈیکو-لیگل سرٹیفکیٹ (ایم ایل سی) کے پروٹوکول سے ختم کردیا جائے گا اِلا یہ کہ اس کی ضرورت نہ ہو۔

پنجاب اسپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ، پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر ڈیپارٹمنٹ اور سرجن میڈیکل لیگل لاہور کی جانب سے ایک مشترکہ جواب میں کہا گیا کہ جنسی استحصال کا شکار متاثرہ خواتین کے طبی معائنے کا مقصد یہ نہیں کہ متاثرہ فریق کے کردار کے بارے میں تبصرہ کیا جائے، نہ ہی ٹی ایف ٹی پر عمل اس مقصد کے تحت جاری ہے اور نہ ہی اس میں کنوارے پن کے تعین کے لیے کوئی ٹھوس شہادتی قدر موجود ہے۔

یہ جواب ٹی ایف ٹی کو چیلنج کرنے سے متعلق 2 مفاد عامہ کی درخواستوں کی سماعت کے دوران جمع کروایا گیا، جس میں اسے بے عزتی کرنا، غیرانسانی اور خواتین کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کہا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان کی ثقافتی اقدار خواتین کے سرجن بننے کی راہ میں رکاوٹ

ان 2 میں سے ایک درخواست مسلم لیگ (ن) کی رکن قومی اسمبلی شائستہ پرویز ملک نے دائر کی جبکہ دوسری درخواست میں خواتین کے حقوق کی کارکنان، ماہرین تعلیم، صحافیوں اور وکلا کی جانب سے ہے، جس میں صدف عزیز، فریدہ شاہید، فریحہ عزیز، فرح ضیا، سارہ زمان، ملیحہ ضیا لاری، ڈاکٹر عائشہ بابر اور زینب حسین شامل ہیں۔

تاہم درخواست گزاروں کے مرکزی وکلا میں ایڈووکیٹ سحر زرین بندیال اور بیرسٹر سمیر کھوسہ شامل ہیں۔

درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ دخل اندازی اور رسوا کرنے کا یہ عمل جہاں میڈیکو لیگل افسران متاثرہ خاتون کی طبی تشخیص کے حصے کے طور پر ہیمن (hymen) اور 'دو انگلیوں کا ٹیسٹ' کرتے ہیں جو ناقابل اعتبار اور غیر ضروری ہے اور اس کی کوئی سائنسی بنیاد بھی نہیں۔

پوری دنیا میں صحت کے دیکھ بھال کے پیشہ ور افراد اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے اس کی منسوخی کے مطالبے کے باوجود پاکستان میں یہ ٹیسٹ عام طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’یوم خواتین‘: وجود زن پر ظلم کی داستان سنانے والی چند تحاریک

درخواست میں اٹھائے گئے نکات پر حکومتی جواب میں کہا گیا کہ صرف مجاز خواتین میڈیکل افسر (ڈبلیو ایم او) ہی ٹی ایف ٹی کرتی ہیں اور وہ بھی متاثرہ خاتون یا اس کے سرپرست کی جانب سے تحریری رضا مندی کے بعد ہوتا ہے۔

جواب میں کہا گیا کہ متاثرہ فریق کی جانب سے انکار کی صورت میں طبی معائنہ نہیں کیا جاتا ہے متعلقہ عدالت کو تحریری طور پر آگاہ کیا جاتا ہے۔

علاوہ ازیں جسٹس عائشہ اے ملک ان درخواست پر 6 نومبر کو اس وقت دوبارہ سماعت کریں گے جب درخواست گزار دوبارہ شامل ہوں گے۔


یہ خبر 12 ستمبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں