‘ریپ’ کے بڑھتے واقعات کو روکنے کی تجویز دینے پر بختاور کو تنقید کا سامنا

اپ ڈیٹ 13 ستمبر 2020
جنسی تعلیم کا مشورہ دینے پر بختاور بھٹو کو کئی افراد نے تنقید کا نشانہ بھی بنایا—فوٹو: انسٹاگرام
جنسی تعلیم کا مشورہ دینے پر بختاور بھٹو کو کئی افراد نے تنقید کا نشانہ بھی بنایا—فوٹو: انسٹاگرام

چند دن قبل صوبہ پنجاب میں ملزمان کی جانب سے رات گئے موٹروے پر مدد کی منتظر خاتون کو ‘گینگ ریپ’ کا نشانہ بنائے جانے پر ملک بھر میں تاحال غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

ساتھ ہی حکومت اور سیاستدانوں نے قانونی اصلاحات کے مطالبے سمیت مجرمان کو سرعام پھانسی دیے جانے کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے۔

تین دن قبل 10 سمتبر کو منگل اور بدھ کی درمیانی شب لاہور کے مضافات میں 2 ملزمان فرانسیسی شہریت رکھنے والی خاتون کو ان کے بچوں کے سامنے گینگ ریپ کا نشانہ بنانے کے بعد ان کے اے ٹی ایم کارڈز لوٹ کر فرار ہوگئے تھے۔

ایک روز قبل ہی پنجاب حکومت نے دو ملزمان کے ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد شناخت کرنے کا دعویٰ کیا تھا اور 13 ستمبر کو پنجاب حکومت کی جانب سے شناخت کیے گئے ملزم وقار نے گرفتاری دیتے ہوئے صوبائی حکومت کے الزامات مسترد کردیے۔

یہ بھی پڑھیں: موٹروے پر خاتون سے زیادتی کے ملزمان تک پہنچ گئے، وزیر اعلیٰ پنجاب

ملزمان کی گرفتاری اور انہیں قانونی کٹہرے میں لانے کے لیے حکومت پر دباؤ کے علاوہ تاحال ملک بھر میں مذکورہ واقعے پر سیاسی و سماجی شخصیات کی جانب سے سخت غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

ساتھ ہی حکومت اور سیاستدانوں سے ریپ کے مجرمان کو سخت سزائیں دلوانے کے لیے قانونی اصلاحات کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے۔

ایسے میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی بہن بختاور زرداری بھٹو نے ملک میں ‘ریپ’ واقعات بڑھنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو ‘جنسی تعلیم’ کی ضرورت ہے۔

بختاور بھٹو نے حیا بخاری نامی خاتون کی جانب سے کی جانی والی ایک ٹوئٹ کو شیئر کرتے ہوئے ملک میں ریپ کے بڑھتے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ملک میں جنسی تعلیم کی ضرورت پر زور دیا۔

بختاور بھٹو نے جس خاتون کی ٹوئٹ شیئر کی، اس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ افریقی ملک کینیا میں مشترکہ جنسی تعلیم کی کلاسز سے وہاں 51 فیصد ریپ واقعات میں کمی ہوئی جب کہ 73 فیصد لڑکوں نے اپنے جنسی استحصال کے خلاف مزاحمت کی۔

بختاور بھٹو نے مذکورہ ٹوئٹ کو شیئر کرتے ہوئے اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ ملک بھر میں مدرسوں سے لے کر پارکنگ کی جگہوں پر ‘ریپ’ واقعات بڑھ چکے ہیں اور خواتین و جانور گھروں میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔

بختاور بھٹو زرداری نے لکھا کہ پاکستان میں ‘جنسی تعلیم’ کی ضرورت ہے، کیوں کہ یہ وہ جرم ہے، جسے رپورٹ ہی نہیں کیا جاتا۔

مزید پڑھیں: موٹروے ریپ کیس میں نامزد ‘ملزم’ نے گرفتاری دے دی، الزامات مسترد

بختاور بھٹو زرداری نے لکھا کہ ہمیں ڈھونگ کرنے کے بجائے مقابلہ کرنے اور تحفظ کے لیے نئی نسل کو تعلیم دینے کی ضرورت ہے۔

بختاور بھٹو زرداری کی مذکورہ ٹوئٹ پر کئی افراد نے کمنٹس کیے اور زیادہ تر افراد نے انہیں تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے یاد دلایا کہ ان کی پارٹی بھی حکومت میں رہی ہے۔

کئی افراد نے بختاور بھٹو زرداری کو اس بات پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا کہ ان کے بھائی اور ان کی پارٹی ریپ ملزمان کو سرعام پھانسی دینے کی مخالف ہے، پہلے مذکورہ معاملے پر اپنے بھائی اور پارٹی کو حمایت کے لیے راضی کریں۔

بختاور بھٹو زرداری کی ٹوئٹ پر رد عمل دینے والے افراد میں اداکار فیروز خان بھی شامل تھے، جنہوں نے ان کی ٹوئٹ شیئر کرتے ہوئے ان کے سامنے کچھ سوالات اٹھائے۔

فیروز خان نے بختاور بھٹو زرداری سے سوال کیا کہ وہ ان سے صرف یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ جب ان کی اپنی جماعت حکومت میں تھی، تب انہوں نے کیا کام کیا تھا؟

فیروز خان نے بختاور بھٹو زرداری سے مزید پوچھا کہ کیا واقعی آپ اب جاگ گئی ہیں؟

تبصرے (0) بند ہیں