موٹروے ریپ کیس کا ایک ملزم گرفتار، اعتراف جرم کرلیا، وزیراعلیٰ پنجاب

اپ ڈیٹ 14 ستمبر 2020
پولیس کی جانب سے ملزم شفقت علی کی جاری کردہ تصویر— فوٹو بشکریہ پنجاب پولیس
پولیس کی جانب سے ملزم شفقت علی کی جاری کردہ تصویر— فوٹو بشکریہ پنجاب پولیس
لاہور میں گینگ ریپ کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کیا گیا تھا— فائل فوٹو: ڈان
لاہور میں گینگ ریپ کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کیا گیا تھا— فائل فوٹو: ڈان

وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے کہا ہے کہ لاہور موٹر وے پر گینگ ریپ میں ملوث ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور اس نے اپنا جرم قبول کر لیا ہے۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ملزم کی شفقت علی کے نام سے شناخت ہوئی ہے اور اس کا ڈی این اے جائے وقوع سے اکٹھا نمونوں سے میچ کر گیا ہے۔

انہوں نے مرکزی ملزم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہماری پوری ٹیم عابد علی کی گرفتاری کے لیے بھی مستقل کوششیں کر رہی ہے اور جلد گرفتاری عمل میں آ جائے گی۔

یاد رہے کہ منگل اور بدھ کی درمیانی شب لاہور کے مضافات میں حملہ آور فرانسیسی شہریت رکھنے والی خاتون کو ریپ کا نشانہ بنانے کے بعد ملزمان ان کا اے ٹی ایم کارڈ لے کر فرار ہوگئے تھے۔

مزید پڑھیں: موٹروے پر مدد کی متلاشی خاتون کا 'ڈاکوؤں' نے 'گینگ ریپ' کردیا

یہ واقعہ اس وقت پیش آیا تھا جب ایک خاتون اپنے بچوں کے ہمراہ گاڑی کا فیول ختم ہونے پر موٹروے پر کھڑی تھیں کہ 2 مسلح افراد وہاں آئے اور مبینہ طور پر خاتون اور ان کے بچوں کو مارا، جس کے بعد وہ انہیں قریبی کھیتوں میں لے گئے جہاں خاتون کا ریپ کیا گیا۔

وزیر اعلیٰ کی ٹوئٹ ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب دوسرا ملزم خود پولیس کے سامنے پیش ہو گیا تھا البتہ پولیس کے مطابق اس نے صحت جرم سے انکار کیا تھا۔

اس شخص کی شناخت عباس کے نام سے ہوئی تھی اور یہ وقار الحسن کا سالا ہے جہاں وقار پولیس کی جانب سے ابتدائی طور پر بتائے گئے دو مشتبہ افراد میں سے ایک تھا۔

وقار الحسن نے ڈی ایس پی حیدر سے رابطہ کر کے خود کو پولیس کے سامنے پیش کردیا تھا، انہوں نے کہا تھا کہ وہ معصوم ہیں اور اس کے ثبوت کے طور پر ڈی این اے ٹیسٹ کی درخواست کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: موٹروے گینگ ریپ کیس کی گتھی تاحال نہیں سلجھ سکی

پولیس کے سامنے پیش ہونے کے بعد وقار نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کا سالا عباس اس کی سم اور موبائل فون استعمال کر رہا تھا اور اس کا مقدمے کے مرکزی ملزم عابد علی سے کچھ تعلق ہے اور ان کا سالا بھی پولیس کے سامنے پیش ہو جائے گا۔

موٹروے زیادتی کیس

خیال رہے کہ 9 ستمبر کو منگل اور بدھ کی درمیانی شب لاہور-سیالکوٹ موٹروے پر گجرپورہ کے علاقے میں 2 مسلح افراد نے ایک خاتون کو اس وقت گینگ ریپ کا نشانہ بنایا تھا جب وہ وہاں گاڑی بند ہونے پر اپنے بچوں کے ہمراہ مدد کی منتظر تھی۔

واقعے کی سامنے آنے والی تفصیل سے یہ معلوم ہوا تھا کہ لاہور کی ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی کی رہائشی 30 سال سے زائد عمر کی خاتون اپنے 2 بچوں کے ہمراہ رات کو تقریباً ایک بجے اس وقت موٹروے پر پھنس گئیں جب ان کی گاڑی کا پیٹرول ختم ہوگیا تھا۔

اس دوران خاتون نے اپنے ایک رشتے دار کو بھی کال کی تھی، جس نے خاتون کو موٹروے ہیلپ لائن پر کال کرنے کا کہا تھا جبکہ وہ خود بھی جائے وقوع پر پہنچنے کے لیے روانہ ہوگیا تھا۔

مزید پڑھیں: زیادتی کا شکار خاتون سے متعلق بیان پر سی سی پی او لاہور کو نوٹس جاری

تاہم جب خاتون مدد کے لیے انتظام کرنے کی کوشش کر رہی تھیں تب 2 مرد وہاں آئے اور انہیں اور ان کے بچوں (جن کی عمر 8 سال سے کم تھی) بندوق کے زور پر قریبی کھیت میں لے گئے، بعد ازاں ان مسلح افراد نے بچوں کے سامنے خاتون کا ریپ کیا، جس کے بعد وہ افراد جاتے ہوئے نقدی اور قیمتی سامان بھی لے گئے۔

اس واقعے کے بعد جائے وقوع پر پہنچنے والے خاتون کے رشتے دار نے اپنی مدعیت میں واقعے کا مقدمہ بھی تھانہ گجرپورہ میں درج کروایا تھا۔

تاہم اس واقعے کے بعد سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے ایک ایسا بیان دیا تھا جس نے تنازع کھڑا کردیا اور عوام، سول سوسائٹی اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے ان کو ہٹانے کا مطالبہ کیا۔

سی سی پی او نے کہا تھا کہ 'خاتون رات ساڑھے 12 بجے ڈیفنس سے گوجرانوالہ جانے کے لیے نکلیں، میں حیران ہوں کہ تین بچوں کی ماں ہیں، اکیلی ڈرائیور ہیں، آپ ڈیفنس سے نکلی ہیں تو آپ جی ٹی روڈ کا سیدھا راستہ لیں اور گھر چلی جائیں اور اگر آپ موٹروے کی طرف سے نکلی ہیں تو اپنا پیٹرول چیک کر لیں'۔

یہی نہیں واقعے کے بعد عوام میں شدید غم و غصہ پایا گیا تھا جس پر حکومت بھی ایکشن میں آئی تھی اور آئی جی پنجاب پولیس نے مختلف تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دی تھیں جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے بھی صوبائی وزیرقانون راجا بشارت کی سربراہی میں ایک خصوصی کمیٹی بنائی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: سی سی پی او لاہور نے اپنے بیان پر معافی مانگ لی

علاوہ ازیں 12 ستمبر کو وزیراعلیٰ پنجاب نے آئی جی پنجاب انعام غنی و دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ 72 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں اصل ملزمان تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔

ساتھ ہی اس موقع پر بتایا گیا تھا کہ واقعے کے مرکزی ملزم کی شناخت عابد علی کے نام سے ہوئی اور اس کا ڈی این اے میچ کرگیا ہے جبکہ اس کی گرفتاری کے لیے کوششیں جاری ہیں، اس کے علاوہ ایک شریک ملزم وقار الحسن کی تلاش بھی جاری ہے۔

تاہم 13 ستمبر کو شریک ملزم وقار الحسن نے سی آئی اے لاہور میں گرفتاری دیتے ہوئے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی تردید کی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں