ڈینیئل پرل کیس: فیصلے کی معطلی کیلئے حکومت سندھ کی اپیل مسترد

اپ ڈیٹ 15 ستمبر 2020
سندھ ہائی کورٹ نے رواں برس اپریل میں فیصلہ سنایا تھا۔فائل/فوٹو: ڈان
سندھ ہائی کورٹ نے رواں برس اپریل میں فیصلہ سنایا تھا۔فائل/فوٹو: ڈان

سپریم کورٹ نے ڈینیئل پرل کیس میں سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کرنے کے لیے حکومت سندھ کی استدعا مسترد کردی جبکہ اپیل سماعت کے لیے مقرر کرنے کا معاملہ چیف جسٹس کو بھیج دیا گیا۔

جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ڈینیئل پرل کیس سے متعلق سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیلوں پر سماعت کی۔

مزید پڑھیں: ڈینیئل پرل کیس: عمر شیخ کی سزائے موت 7 سال قید میں تبدیل، 3 ملزمان رہا

سماعت کے دوران جسٹس منظور احمد ملک نے حکومت سندھ کے وکیل سے پوچھا کہ ڈینیئل پرل کے اغوا کا گواہ کون ہے، انہیں کیسے علم ہوا کہ گورے رنگ کا یہ شخص ڈینئل پرل ہے۔

حکومت سندھ کے وکیل فاروق ایچ نائک نے کہا کہ حالات و واقعات سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ وہ ڈینیئل پرل تھا، ڈینیل پرل سی پی ایل سی کے سربراہ سے ملنے کے بعد عمر شیخ سے ملا۔

جسٹس منظور احمد ملک سے پوچھا کہ کیا اس گاڑی کا نمبر ملا جس پر ڈینیئل پرل سوار ہوا جبکہ ٹرائل کورٹ نے دفعہ 302 کے تحت ملزمان کو سزا ہی نہیں دی، کیا آپ نے ٹرائل کورٹ کے حکم کو چیلنج کیا تھا۔

جسٹس قاضی امین نے کہا کہ اس کیس میں کیپٹل ریفرنس فائل کیا گیا تھا، جس پر وکیل حکومت سندھ نے کہا ہائی کورٹ کے حکم میں کہا گیا ہے کہ سازش ہوٹل میں نہیں ہوئی جبکہ میں یہ ثابت کروں گا کہ سازش ہوٹل میں ہوئی۔

جسٹس منظور احمد ملک نے استفسار کیا کہ سزا کے خلاف اور ملزمان کو بری کرنے کے فیصلوں کے الگ الگ اصول ہیں, یہ بتائیں کہ ملزمان اب تک کتنی سزا کاٹ چکے ہیں، جس پر ملزمان کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ملزمان 18 سال سے زائد سزا کاٹ چکے ہیں۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اس کیس کے سات بنیادی نکات ہیں جن پر بحث کے لیے تین گھنٹے چاہیئیں تاہم جسٹس منظور احمد ملک نے کہا آپ بے شک 17 نکات لے آئیں مگر تین گھنٹے زیادہ وقت ہے۔

جسٹس قاضی آمین کا کہنا تھا کہ فاروق ایچ نائیک آپ آئندہ سماعت سے قبل تحریری دلائل جمع کرا دیں، فاروق ایچ نائیک نے عدالت سے استدعا کی 30 ستمبر کو ملزمان رہا ہو جائیں گے اس سے پہلے کیس سماعت کے لیے مقرر کیا جائے, ممکن ہو تو عدالت سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کرے۔

مزید پڑھیں: ڈینیئل پرل قتل کیس: سندھ حکومت نے فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا

سپریم کورٹ نے سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کرنے کی استدعا مسترد کر دی اور کیس کی سماعت کے لیے تقرر کا معاملہ چیف جسٹس گلزار احمد کو بھیج دیا۔

قبل ازیں سپریم کورٹ نے 29 جون کو ڈینیئل پرل قتل کیس میں سندھ حکومت کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف حکم امتناع کی استدعا بھی مسترد کردی تھی۔

واضح رہے کہ سندھ ہائیکورٹ نے ڈینیئل پرل کیس میں 2 اپریل 2020 کو امریکی صحافی کے قتل میں نامزد 3 ملزمان کی رہائی کا حکم دیا تھا اور ایک ملزم احمد عمر شیخ کی سزائے موت کو 7 سال قید میں تبدیل کردیا تھا۔

بعدازاں 29 اپریل کو حکومت سندھ نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا جس کے لیے پراسیکیوٹر جنرل سندھ نے تین درخواستیں دائر کی تھی جن میں سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دینے اور ملزمان کی سزائیں بحال کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔

تاہم عدالت نے سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے قرار دیا کہ فیصلہ معطل کرنے کے لیے دائر کردہ درخواست میں غیر متعلقہ دفعات کا حوالہ دیا گیا۔

ڈینیئل پرل قتل کیس

یاد رہے کہ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جنرل کے جنوبی ایشیا کے بیورو چیف 38 سالہ ڈینیئل پرل کراچی میں مذہبی انتہا پسندی پر تحقیق کررہے تھے جب انہیں جنوری 2002 میں اغوا کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔

سال 2002 میں امریکی قونصل خانے کو بھجوائی گئی ڈینیئل پرل کو ذبح کرنے کی گرافک ویڈیو کے بعد عمر شیخ اور دیگر ملزمان کو گرفتار کیا گیا تھا۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ملزم احمد عمر سعید شیخ المعروف شیخ عمر کو سزائے موت جبکہ شریک ملزمان فہد نسیم، سلمان ثاقب اور شیخ عادل کو مقتول صحافی کے اغوا کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ڈینیئل پرل قتل کیس میں رہا ہونے والے ملزمان 3 ماہ کیلئے زیرحراست

بعد ازاں حیدرآباد کی انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے شیخ عمر اور دیگر ملزمان کو اغوا اور قتل کا مرتکب ہونے پر سزا ملنے کے بعد ملزمان نے 2002 میں سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے ریکارڈ کا جائزہ لینے، دلائل سننے کے بعد ملزمان کی 18 سال سے زیر التوا اور حکومت کی جانب سے سزا میں اضافے کی اپیلوں پر سماعت کی تھی اور مارچ میں فیصلہ محفوظ کیا تھا جسے 2 اپریل کو سنایا گیا۔

عدالت نے مقدمے میں نامزد 4 ملزمان کی سزا کے خلاف دائر کردہ اپیلوں پر فیصلہ سناتے ہوئے 3 کی اپیلیں منظور جبکہ عمر شیخ کی سزائے موت کو 7 سال قید میں تبدیل کردیا تھا۔

فیصلے کے خلاف سندھ حکومت کی درخواست

واضح رہے کہ سندھ حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر اپیل میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ وال اسٹریٹ جنرل کے صحافی کی قتل کی ویڈیو کی ایک سرکاری عہدیدار (پی ٹی وی کے ایک ماہر) سے تصدیق کروائی گئی تھی جبکہ اسے کبھی چیلنج نہیں کیا گیا۔

چنانچہ جمع شدہ ثبوتوں اور خاص کر ملزم اور شریک ملزمان کے اعترافی بیانات کے تناظر میں ہائی کورٹ کی جانب سے سزا میں تبدیلی اور بریت پائیدار نہیں اور اسے کالعدم ہونا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں:ڈینیئل پرل کیس: حکومت سندھ کی حکم امتناع کی درخواست مسترد

اسی طرح فطری اور آزاد شواہد اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ تاوان کا مطالبہ ملزم نے ہی کیا تھا اور ڈاکیومینٹری ثبوت سے یہ بات ثابت بھی ہوئی چنانچہ سزا میں تبدیلی اور بریت غیر قانونی ہے۔

اپیل میں کہا گیا تھا کہ ملزم ایسا کوئی مواد پیش نہیں کرسکا جو پروسیکیوشن کے ثبوتوں کے خلاف شک پیدا کرتا بلکہ شریک ملزمان نے ریمانڈ کے دوران ٹرائل جج کے سامنے اپنا جرم قبول کیا۔

عدالت عظمیٰ میں دائر اپیل میں کہا گیا تھا کہ ہائی کورٹ اس کیس کے سنگین عوامل سمجھنے میں ناکام رہی جبکہ ملزم اور شریک ملزمان کی بریت اور سزائے موت میں تبدیلی کا فیصلہ انصاف کا قتل اور عدالت عظمیٰ کے طے کردہ اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں