پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ایف اے ٹی ایف سے متعلق تین بل منظور، اپوزیشن کا احتجاج

اپ ڈیٹ 12 اکتوبر 2020
حکومت نے واضح اکثریت سے بل منظور کرالیے—فوٹو: ڈان نیوز
حکومت نے واضح اکثریت سے بل منظور کرالیے—فوٹو: ڈان نیوز

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں حکومت نے واضح اکثریت سے سینیٹ سے مسترد ہونے والے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) سے متعلق تینوں بل منظور کر لیے جبکہ اپوزیشن احتجاجاً اجلاس سے واک آؤٹ کر گئی۔

قومی اسمبلی اور سینیٹ کا مشترکہ اجلاس آج اسلام آباد میں اسپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت ہوا جس میں وزیر اعظم عمران خان نے بھی شرکت کی۔

اجلاس میں بڑی تعداد میں اراکین کورونا وائرس کے ایس او پیز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نظر آئے اور اکثریت نے ماسک نہیں پہنے ہوئے تھے۔

اجلاس شروع ہوتے ہی بابر اعوان نے وقف املاک بل 2020 کی تحریک پیش کی جسے اسپیکر نے منظور کر لیا لیکن اپوزیشن نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔

مزید پڑھیں:ایف اے ٹی ایف سے متعلق ایک اور بل سینیٹ میں مسترد

احتجاج کے دوران اپوزیشن کا موقف تھا کہ ان کے اراکین کو صحیح طریقے سے نہیں گنا جا رہا اور جلد بازی میں بل منظور کیا جا رہا ہے۔

اسی ہنگامہ آرائی کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی آغاز رفیع اللہ کی حکومتی اراکین کے ساتھ جھڑپ بھی ہوئی۔

پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما نوید قمر اور شیری رحمٰن نے اسپیکر کے ڈائس کے سامنے احتجاج کیا جبکہ اپوزیشن نے ایوان میں نعرے بازی کرتے ہوئے 'ووٹ کو عزت دو' کے نعرے بھی بلند کیے۔

اپوزیشن کے احتجاج پر اراکین کی دوبارہ گنتی کی گئی اور دوبارہ گنتی کے بعد بھی اسلام آباد وقف املاک بل پیش کرنے کی تحریک کو اکثریت سے منظور کر لیا گیا۔

مجموعی طور پر عددی برتری کے باوجود اپوزیشن اراکین کی حاضری کم رہی جس کے نتیجے میں تحریک کے حق میں 200 جبکہ مخالفت میں 190 ووٹ پڑے۔

بعدازاں بل کی شق وار منظوری کا عمل شروع کیا گیا لیکن اس دوران اپوزیشن اراکین اپنی نشستوں پر کھڑے رہے اور احتجاج کرتے رہے جس پر اسپیکر نے دوبارہ گنتی کرانے پر رضامندی ظاہر کی۔

وزیر اعظم کے مشیر بل پیش نہیں کر سکتے، رضا ربانی

پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما رضا ربانی نے ایوان میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بل منسٹر انچارج پیش کر سکتا ہے اور اس وقت پارلیمانی امور کے منسٹر انچارج وزیر اعظم پاکستان ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: انسداد دہشت گردی ترمیمی بل قومی اسمبلی سے منظور

ان کا کہنا تھا کہ میں آپ کی توجہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کی طرف دلانا چاہتا ہوں جو انہوں نے پچھلے ہفتے دیا ہے اور اس میں واضح الفاظ میں کہا گیا ہے کہ معاون خصوصی اور مشیر وزیر نہیں ہیں، ان کے پاس وزیر کا اسٹیٹس تو ہو سکتا ہے لیکن وزیر کا اسٹیٹس ہونے اور وزیر کے کام انجام دینا دو مختلف چیزیں ہیں۔

رضا ربانی نے کہا کہ یہ بات عدالت کے اس فیصلے سے میل نہیں کھاتی کہ مشیر یہ تحریک پیش کر سکیں کیونکہ وہ ایک وزیر نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ عدالت کے فیصلے میں مزید کہا گیا کہ یہ وزیر اعظم کا استحقاق ہے کہ وہ کسی بھی شخص کو معاون خصوصی یا مشیر تعینات کر سکتے ہیں لیکن ان کا کام صریحاً وزیر اعظم کے کام میں ان کو مشورے اور معاونت فراہم کرنا ہے اور اس سے زیادہ کچھ نہیں۔

پیپلز پارٹی کے رہنما نے کہا کہ وہ فیصلہ یہ بھی کہتا ہے کہ آئین میں ان پانچ مشیروں کے پاس یہ رعایت ہے کہ وہ ایوانوں میں بیٹھ سکتے ہیں اور بات کر سکتے ہیں لیکن وہ ووٹ نہیں دے سکتے۔

انہوں نے کہا کہ وہ فیصلہ یہ بھی کہتا ہے کہ مشیر و معاون خصوصی نہ وزیر کے ایگزیکٹو فنکشن انجام دے سکتے ہیں، وہ حکومتی ترجمان نہیں بن سکتے، یہ استحقاق صرف وزیر یا وزیر اعظم کا ہے۔

رضا ربانی یہ بات لکھی ہوئی دکھا دیں، میں مان جاؤں گا، وزیر قانون

اس موقع پر وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا کہ مشیروں کے لیے آئین کا آرٹیکل 93 ہے جو یہ کہتا ہے کہ صدر، وزیر اعظم کے مشورے پر ایسی شرائط پر جو وہ متعین کرے، زیادہ سے زیادہ پانچ مشیر مقرر کر سکے گا جبکہ اس کی دوسری شق کہتی ہے کہ آرٹیکل 57 کا کسی بھی مشیر پر بھی اطلاق ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ آرٹیکل وزیر اعظم کسی وفاقی وزیر، کسی وزیر مملکت اور اٹارنی جنرل کو کسی بھی ایوان یا ان کے کسی مشترکہ اجلاس یا ان کی کسی کمیٹی میں جس کا اسے رکن نامزد کردیا جائے، تقرر کرنے اور بصورت دیگر اس کی کارروائی میں حصہ لینے کا حق ہو گا لیکن اس آرٹیکل کی بنا پر ووٹ دینے کا حق نہیں ہو گا۔

مزید پڑھیں: سینیٹ نے ایف اے ٹی ایف سے متعلق مزید دو بل منظور کرلیے

فروغ نسیم نے کہا کہ آئین کے تحت صرف یہ قدغن ہے کہ یہ ووٹ نہیں دے سکتے اور رضا ربانی جس عدالتی فیصلے کی بات کر رہے ہیں وہ وزیر اعظم کے معاون خصوصی کے بارے میں ہے جبکہ جو بات رضا ربانی کہہ رہے ہیں، اگر وہ اس فیصلے میں لکھی ہوئی دکھا دیں تو میں ان کی بات مان جاؤں گا، جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے تو یہ بات فیصلے کا حصہ نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب آئین یا قوانین میں کوئی قدغن لگائی جاتی ہے تو ٹھیک اس کے علاوہ کوئی قدغن نہیں لگائی جا سکتی کہ یہ بل پیش نہیں کر سکتے۔

اسپیکر ایف اے ٹی ایف کی غلامی میں پارلیمنٹ کی توہین کر رہے ہیں، سینیٹر مشتاق احمد

اسپیکر قومی اسمبلی نے جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد کو ترامیم پیش کرنے کا کہا جس پر انہوں نے ایوان میں اسپیکر کے رویے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

انہوں نے کہا کہ شق دو، شق 6 اور شق آٹھ میں میری ترامیم تھیں لیکن آپ نے مجھے بولنے کا موقع نہیں دیا، آپ نے قوانین کو بلڈوز کیا اور آپ ایف اے ٹی ایف کی غلامی میں پارلیمنٹ کی توہین کر رہے ہیں۔

سینیٹر مشتاق نے ترمیم پیش کی تو مشیر قانون بابر اعوان نے اس کی مخالفت کی جس کے بعد اسے ایوان میں ووٹ کے لیے پیش کیا گیا اور ووٹنگ کی بنیاد پر ترمیم مسترد کردی گئی۔

بل کی شق نمبر 14 میں دو ترامیم پارلیمانی سیکریٹری کنول شوزب نے پیش کیں جبکہ سینیٹر مشتاق احمد نے ایک اور ترمیم پیش کرتے ہوئے کہا کہ اسپیکر صاحب آپ دستور کے خلاف قانون سازی کر رہے ہیں۔

اسپیکر نے پارلیمانی سیکریٹری کی ترمیم ووٹنگ کے لیے پیش کی جسے منظور کر لیا گیا جبکہ سینیٹر مشتاق احمد خان کی ترمیم کو ووٹنگ میں مسترد کردیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: انسداد دہشت گردی ترمیمی بل سینیٹ سے بھی منظور

سینیٹر مشتاق احمد نے شق نمبر 16 میں بھی ترمیم پیش کی جسے مشیر قانون کی جانب سے مخالفت کے بعد ووٹنگ میں مسترد کردیا گیا جبکہ ان کی جانب سے شق 21 میں ترمیم کی قرارداد بھی مسترد کردی گئی۔

شق 25 کو خارج کرنے کی قرارداد پارلیمانی سیکریٹری کنول شوزب نے پیش کی جسے منظور کر لیا گیا۔

بابر اعوان نے اسلام آباد وقف املاک بل پیش کیا جسے منظور کر لیا گیا جبکہ اس کے بعد انہوں نے انسداد منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 میں دوسری ترمیم کا بل پیش کیا اور کہا کہ آئین کے آرٹیکل 70(3) کے تحت زیر غور لایا جائے اور ان کے ترمیمی بل کو منظور کر لیا گیا۔

بلاول کو گفتگو کی اجازت دینے سے انکار

اپوزیشن نے اسپیکر سے درخواست کی کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو ترمیم پیش کرنے کی اجازت دی جائے لیکن اس پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اگر بلاول نے ترمیم جمع نہیں کرائی تو بات کرنے کا موقع نہیں دیا جا سکتا۔

بلاول کو گفتگو کی اجازت نہ دینے پر پیپلز پارٹی سمیت اپوزیشن جماعتوں نے احتجاج کیا۔

اپوزیشن نے احتجاج کیا جس کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی کو اس حوالے سے قوانین دکھائے گئے البتہ بابر اعوان نے آئین سے رولز پڑھتے ہوئے کہا کہ ترمیم پیش کرنے والے رکن کے علاوہ کوئی بات نہیں کر سکتا۔

اس کے بعد رکن اسمبلی ملائیکہ علی بخاری نے انسداد منی لانڈرنگ کا دوسرا ترمیمی بل پیش کیا جس میں اثاثوں، بینکاری، کاروباری و مالیاتی معاملے کے حوالے سے مختلف تبدیلیاں تجویز کی گئیں۔

شاہد خاقان عباسی کے تحفظات اور احتجاج مسترد

سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے ایوان کی کارروائی اور اسپیکر کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ رول 126 پڑھ لیں، اس کے مطابق جنرل ڈسکشن پہلے ضروری ہے، آپ بحث کیے بغیر ترامیم پر نہیں جا سکتے۔

انہوں نے کہا کہ یہاں اتنا شور ہے کہ سمجھ ہی نہیں آ رہا، یہاں بل میں 12 ترامیم ہیں تو آپ کس کی بات کر رہے ہیں۔

شاہد خاقان عباسی کی جانب سے اجلاس کی کارروائی پر تحفظات کے باوجود اسپیکر نے ترمیم پر ووٹنگ کرا لی جبکہ شاہد خاقان کی ترمیم کو مسترد کردیا گیا۔

اپوزیشن کا احتجاجاً اجلاس سے واک آؤٹ

اس کے بعد ملائیکہ علی بخاری نے دوبارہ اینٹی منی لاڈرنگ بل میں ترمیم کی قرارداد پیش کی جس میں منی لانڈرنگ کرنے والوں کے لیے سزا تجویز کی گئی اور اس بل میں 10سال تک سزا کے ساتھ ساتھ ڈھائی کروڑ روپے سے 10 کروڑ روپے تک جرمانے کی تجویز دی گئی۔

اسپیکر کے کہنے کے باوجود شاہد خاقان عباسی نے قرارداد پیش نہیں کی جس کے بعد پارلیمانی سیکریٹری برائے قانون و انصاف ملائیکہ علی بخاری کی قرارداد منظور کر لی گئی۔

اس موقع پر اپوزیشن کی جانب سے اجلاس کی کارروائی کے خلاف احتجاج کیا گیا اور 'گو اسپیکر گو' کے نعرے لگائے گئے۔

اس کے بعد شہباز شریف، بلاول بھٹو، شاید خاقان عباسی اور شیری رحمٰن سمیت تمام اپوزیشن اراکین اجلاس سے واک آؤٹ کر گئے۔

اینٹی منی لانڈرنگ ترمیمی بل منظور

اپوزیشن کی غیرموجودگی میں بھی قانون سازی کا عمل جاری رہا اور بل کی شق نمبر 4، نمبر 5، شق 6، شق 8، شق نمبر 10، شق 11، شق 19 میں حکومتی ترامیم کو منظور کر لیا گیا۔

اس کے بعد بابر اعوان نے انسداد منی لانڈرنگ بل کی منظوری کی قرار پیش کی جسے ایوان نے منظور کر لیا۔

اس کے بعد بابر اعوان نے 90 دن میں سروے اور میپنگ ایکٹ 2014 میں ترمیم کی قرارداد پیش کی جسے منظور کر لیا گیا۔

اس میں شق 2 سے 11 تک کو بغیر کسی ترمیم کے منظور کر لیا گیا جبکہ شق نمبر ایک کی بھی منظوری دے دی گئی جس کے بعد ترمیمی بل کو منظور کر لیا گیا۔

انسداد دہشت گردی ترمیمی بل منظور

اس کے بعد تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی نے انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کا ترمیمی بل پیش کیا اور اسے بھی بغیر کسی مخالفت کے منظور کر لیا گیا۔

اس بل کے تحت تفتیشی افسر عدالت کی اجازت سے دہشت گردی کی فنڈنگ، ان کے ذرائع اور مواصلات اور کمپیوٹر سسٹم سمیت جدید مواصلات کا استعمال کرتے ہوئے 60 دن میں خفیہ آپریشن کر سکتے ہیں، آج اس بل کو سینٰٹ سے مسترد کردیا گیا تھا۔

تمام بل منظور کیے جانے کے بعد وزیر اعظم نے اپنی جماعت کے اراکین اسمبلی اور اتحادیوں کا بل کی منظوری میں تعاون پر شکریہ ادا کیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں