اس ہفتے آپ میں سے کئی طلبہ نے اسکول اور کالجوں کا رخ کیا جب کہ متعدد گھر پر رہے اور آن لائن کلاسز جاری رکھیں۔ میں اندازہ کرسکتی ہوں کہ واپسی کے وقت آپ سب گھبراہٹ، خوف اور جوش و خوشی جیسی ملی جلی کیفیت کا شکار ہوں گے، کیونکہ ایک طویل عرصے کے بعد سب گھر سے نکلے، دوستوں سے ملاقات کی، دیگر افراد سے بات کرنے کا موقع ملا اور پھر آخرکار اساتذہ کے سامنے کلاس لی۔

اسکول کھلونے کا فیصلہ ہرگز آسان نہیں تھا، بلکہ اس کے لیے بہت سے لوگوں نے کوششیں کی اور اس معاملے میں شامل افراد نے ہر طرح سے تیاریاں کیں۔

جب حکومت نے اسکول کھولنے سے متعلق اعلان کیا تو کئی اسکولوں نے اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے کیمپس میں طلبہ کا خیر مقدم کیا، لیکن کچھ اسکول ایسے بھی تھے جنہوں نے محفوظ لائحہ عمل اختیار کرتے ہوئے اسکولوں کو بند رکھنے اور آن لائن کلاسز کا سلسلہ جاری رکھا۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ دونوں ہی طریقے کسی چیلنج سے کم نہیں، اور دونوں میں ہی فائدے اور نقصان کا اندیشہ ہے۔

مزید پڑھیے: ملک بھر میں تعلیمی ادارے 6 ماہ بعد دوبارہ کھل گئے

بہرحال ہم ابھی اس معاملے پر بات نہیں کرتے، بلکہ ہمیں تو اس پر توجہ دینی چاہیے کہ جو طلبہ اسکول جارہے ہیں انہیں کیا کرنا چاہیے اور ہم انہیں یہ بتائیں کہ اس صوتحال میں وہ کس طرح اپنا بہتر خیال رکھ سکتے ہیں۔

اس سے تو کوئی انکار نہیں کہ کورونا مکمل طور پر ختم نہیں ہوا اور وہ اب بھی موجود ہے، اور لوگ اس کا اب بھی شکار بن رہے ہیں اور اب تک اس وائرل بیماری کے لیے کوئی دوا یا علاج سامنے نہیں آسکا ہے، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہم نے اسی ماحول میں جینا ہے اور دنیا کو آگے بڑھنا ہے، جس کے لیے محتاط رہتے ہوئے سوچ سمجھ کر احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا لازمی ہے تاکہ ہم کورونا وائرس سے محفوظ رہ سکیں۔ ہماری حفاظت خود ہم پر منحصر ہوچکی ہے اور ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ زندگی معمول پر واپس نہیں آرہی لہٰذا ایک نئے معمول کے مطابق ماسک، سینیٹائزر اور سماجی فاصلے کی اصولی طور پر پابندی کرنی ہوگی۔

یاد رہے کہ حکومت نے صرف اسکول کھولنے کے اعلان تک کی ذمہ داری قبول کی ہے جبکہ باقی ذمہ داری تعلیمی اداروں، طلبہ اور ان کے والدین اور اس میں شامل تمام معاون عملے پر عائد ہوتی ہے۔ اگرچہ چند اسکولوں میں کسی حد تک سماجی فاصلے کا انتظام کرنے کے لیے خاص انفرااسٹرکچر موجود ہے لیکن بیشتر اسکول اور کالجوں میں فنڈز، جگہ اور افرادی قوت کا فقدان ہے جس کے باعث وہ اس طرح کا محفوظ ماحول فراہم کرنے میں ناکام ہیں جس کی موجودہ وبائی صورتحال میں توقع کی جارہی ہے۔

میں تصور کرسکتی ہوں کہ ان اداروں کی انتظامیہ پر کس قدر دباؤ ہوگا اور وہ اپنے آپ کو اور طلبہ کو محفوظ رکھنے کے لیے کتنی سخت محنت کر رہے ہوں گے۔ انہیں سب کو بہترین سہولیات اور ایس او پیز فراہم کرنا ہوں گی اور بہت سے لوگوں کو اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے اپنی گنجائش سے بڑھ کر کام کرنا ہوگا۔

یہاں بچوں کو اس بات کا احساس کرنا ہوگا کہ ان پر بھی ذمہ داری ہے کہ امسال 2020ء میں اسکول کی واپسی محفوظ اور کامیاب بنانے کے لیے اپنا فعال کردار ادا کریں، موجودہ صورتحال میں آپ اور آپ کے والدین کی ذمہ داری شاید سب سے زیادہ ہے، اور آپ کو اپنی حفاظت کی ذمہ داری خود لینی پڑے گی اور ان تمام احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا ہوگا جن کو ہم سب اچھی طرح سے جانتے ہیں۔

اسکولوں اور کالجوں کو دوبارہ کھولنے کا مقصد صرف طلبہ کو بحفاظت اداروں میں واپس بلانا نہیں بلکہ اس بات کو بھی یقینی بنانا ہے کہ اسکول میں وائرس کا کم سے کم خطرہ ہو۔ اس لیے آپ کو ذہن نشین کرنا ہوگا کہ آپ اس اسکول کے ماحول میں واپس نہیں جا رہے جسے آپ نے چھوڑا ہے بلکہ نئے ماحول کے لیے نیا معمول اور نیا طرزِ عمل درکار ہے۔

آپ صرف اسی بات کے ذمہ دار نہیں کہ ان حالات و واقعات سے بچیں جو کورونا وائرس کا سبب بن سکتے ہیں بلکہ اگر آپ بیمار ہیں تو اس وائرس سے دوسروں کو خطرے میں نہ ڈالیں۔ جب آپ دیکھیں کہ کوئی دوسرا لاپرواہی سے کام لے رہا ہے، جیسے بہت قریب آنا یا وہ اپنے چہرے کو ہاتھ وغیرہ لگائیں تو آپ کو ڈاکٹروں کی تجویز کردہ احیتاطی تدابیر انہیں یاد دلانے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرنی چاہیے۔

اگر آپ کے اسکول یا اسکول وین نے کچھ اصول وضح کیے ہیں خواہ سماجی دُوری کے بارے میں ہوں یا کچھ اور، تو آپ کو اس پر عمل کرنا ہوگا اور دوسروں کو بھی اس پر عمل کروانے سے متعلق یاددہانی کروانی ہوگی۔ ہاں کورونا وائرس سے پہلے اسکول کے اچھے دنوں میں اصول توڑنے میں مزہ تھا لیکن اب یہ خطرناک ہوسکتا ہے جیسا کہ میں نے پہلے کہا تھا کہ آپ کی اور دوسروں کی صحت کی حفاظت آپ کے اپنے ہاتھوں میں ہے۔

مزید پڑھیے: کیا ان حالات میں اسکولوں کو دوبارہ کھولنا ٹھیک ہے؟

عالمی سطح پر اگر دیکھا جائے تو یہ سمجھنا آسان ہے کہ جن ممالک میں سخت لاک ڈاؤن اور ایس او پیز نافذ کیے گئے تھے اور لوگوں نے ان پر عمل کیا، وہاں کورونا انفیکشن کو قابو کرنے میں بہت مدد ملی، لیکن باقی دنیا جہاں اس طرح کے ایس او پیز کو اپنی آزادی کے خلاف سمجھا گیا یا اس معاملے کو زیادہ سنجیدہ نہیں لیا گیا وہاں سیکڑوں اور ہزاروں لوگ متاثر ہوئے۔ وہ لوگ جو کسی ایسے شخص کے بارے میں جانتے ہیں جسے کورونا ہوگیا ہے، انہیں اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ دھوکا نہیں ہے۔

آخر میں، گھبرانے یا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ اس سے آپ کے لیے معاملات مزید مشکل ہوجائیں گے۔ مضبوط رہیں اور وائرس کو دکھائیں کہ آپ طاقتور ہیں۔ آپ ذمہ دار اور الرٹ رہتے ہوئے اسے شکست دے سکتے ہیں۔ یہ ایک چھوٹی سی چیز ہے جس کا خاتمہ صابن یا کسی جراثیم کش اشیا سے ہوسکتا ہے۔ آپ آسانی سے اپنے ہاتھوں کو صاف رکھتے ہوئے چہرے سے دُور رکھ سکتے ہیں، کیا آپ ایسا نہیں کرسکتے ہیں؟ دیکھیے یہ کتنا آسان ہے؟ آپ کے ہاتھ اور ناک وہ دو چیزیں ہیں جن کا آپ کو خیال رکھنا ہے اور آپ محفوظ رہیں گے۔ اور اگر آپ مثبت رہتے ہیں تو ، صرف مثبت چیزیں ہی ہوں گی۔

تو طلبہ کی زندگی کے اس نئے سفر کے لیے نیک تمنائیں۔ محفوظ رہیں اور دوسروں کو بھی محفوظ رکھیں!

چند مشورے

  • عالمی ادارہ صحت تجویز کرتا ہے کہ عوامی مقامات پر کپڑے کے فیس ماسک پہنیں، خاص طور پر بسوں میں، ڈراپ آف یا پک اپ پوائنٹ پر، یا جب بلڈنگ میں داخل ہوں۔
  • آپ کو ایک سے زائد کپڑے کے فیس ماسک اپنے ساتھ رکھنے چاہئیں، صاف اور دوبارہ فروخت ہونے والے بیگ میں رکھیں، خاص طور پر تب جب آپ اسے نہیں پہن سکتے جیسے کھانا کھاتے وقت، تو اس وقت ماسک کو کہیں رکھ دیں۔
  • اپنے ماسک پر کوئی ایسی علامت رکھیں جو دوسرے بچے کے ماسک سے مختلف ہو تاکہ پریشانی نہ ہو۔
  • فیس ماسک کے کپڑے کے حصے کو ہاتھ لگائے بغیر چڑھانے اور اتارنے کی پریکٹس کریں۔
  • ماسک کو ہاتھ لگانے سے پہلے اور لگانے کے بعد اپنے ہاتھوں کو دھوئیں۔
  • اپنے ماسک کو کبھی کسی سے شیئر نہ کریں، نہ مانگیں اور نہ ہی ادھار لیں۔
  • جنہیں اپنی طبّی حالت کے باعث ماسک پہن کر سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے وہ اسکول میں آگاہ کریں اور دوسروں کے ساتھ فاصلہ برقرار رکھیں۔

ماسک کس طرح پہنے جائیں؟

  • ماسک سے منہ اور ناک دونوں کو ڈھانپیں۔
  • ماسک چہرے کے چاروں اطراف سے فٹ رکھیں مگر آرام سے۔
  • ماسک کو اپنے کانوں سے باندھتے ہوئے خیال رکھیں
  • ماسک میں کپڑے کی ایک سے زائد سطح ہو
  • سانس لینا آسان ہو
  • استعمال کے بعد دھولیں اور احتیاط سے خشک کریں

یہ مضمون 19 ستمبر 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

Azad J Sep 22, 2020 11:28am
Please do not advise children on what to do instead protect them from society’s ills by being vigilant and making examples of the culprits.
HonorBright Sep 22, 2020 04:13pm
It's hard to see the efficacy of following SOPs where majority of people, including college administration, is unwilling to be serious about them. What we are seeing on ground presents a totally different view of the corona crisis from how it's being portrayed in news outlets.