پاکستان خودمختار ریاست ہے، اپنا شہری کیسے کسی کو دے دیں، سپریم کورٹ

اپ ڈیٹ 21 ستمبر 2020
عدالت نے دریافت کیا کہ اب تک امریکا اور برطانیہ سے کتنے ملزمان پاکستان لائے گئے—فائل فوٹو: اے ایف پی
عدالت نے دریافت کیا کہ اب تک امریکا اور برطانیہ سے کتنے ملزمان پاکستان لائے گئے—فائل فوٹو: اے ایف پی

سپریم کورٹ میں ملزم کی امریکا حوالگی سے متعلق کیس میں جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ پاکستان ایک خودمختار ریاست ہے، ایسے کیسے اپنا شہری کسی کو دے دیں۔

جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں جسٹس قاضی امین پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے ملزم طلحہ ہارون حوالگی کیس کی سماعت کی۔

درخواست کے وکیل طارق محمود نے مؤقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ نے تو حسین حقانی کو بھی واپس لانے کا حکم دیا تھا۔

درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سنگل بینچ نے قرار دیا تھا کہ شواہد قابل قبول نہیں اور انٹرا کورٹ اپیل میں ہائی کورٹ نے جرم کا تعین انکوائری مجسٹریٹ پر چھوڑ دیا۔

یہ بھی پڑھیں: عدالتی فیصلے کے بعد دہشت گردی کے ملزم کی امریکا حوالگی کیلئے راہ ہموار

انہوں نے کہا کہ خدشہ ہے مجسٹریٹ برائے نام کارروائی کرکے ملزم کو امریکا کے حوالے کر دے گا۔

سپریم کورٹ نے ہدایت کی کہ عدالت کو آگاہ کیا جائے کہ کیا امریکا اور برطانیہ کے ساتھ ملزمان کی حوالگی کے معاہدے ہیں؟

عدالت نے دریافت کیا کہ اب تک امریکا اور برطانیہ سے کتنے ملزمان پاکستان لائے گئے اور کتنے حوالے کیے گئے؟ ساتھ ہی ان کا ریکارڈ پیش کرنے کا بھی دیا۔

جسٹس قاضی امین نے دریافت کیا کہ اگر پاکستان اور امریکا کے درمیان ملزمان کی حوالگی کا معاہدہ نہیں تو حوالگی کیسے ہو سکتی ہے؟

مزید پڑھیں: پاکستانی نژاد امریکی شہری کی امریکا حوالگی کے حکم امتناع میں توسیع

انہوں نے ریمارکس دیے کہ ویسے تو امریکا جسے چاہتا ہے بغیر معاہدے کے بھی لے جاتا ہے، ایسے کونسے شواہد ہیں جن کی بنیاد پر ملزم کو حوالے کیا جائے؟

جسٹس قاضی امین کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان ایک خودمختار ریاست ہے، ایسے کیسے اپنا شہری کسی کو دے دیں, ہم اپنے شہریوں کا تحفظ ضرور کریں گے لیکن قانون کے مطابق کریں گے۔

اس کے علاوہ عدالت نے اٹارنی جنرل پاکستان خالد جاوید خان اور وزارت خارجہ کے متعلقہ حکام کو ریکارڈ کے ہمراہ طلب کرلیا۔

سپریم کورٹ نے نیویارک ٹائمز اسکوئر حملے کے مبینہ ملزم طلحہ ہارون کو تا حکم ثانی امریکا کے حوالے کرنے سے روک دیا اور متعلقہ ریکارڈ طلب کرتے ہوئے سماعت 2 ہفتوں کے لیے ملتوی کردی گئی۔

کیس کا پس منظر

خیال رہے کہ اس سے قبل یہ مقدمہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت تھا اور 18 اگست کو ہائی کورٹ نے دہشت گردی کے الزامات کا سامنا کرنے والے پاکستانی نژاد امریکی شہری کو غیر ملکی حکام کے حوالے کرنے کی سخت شرائط میں نرمی کرتے ہوئے غیر ملکی تفتیشی افسر کی ذاتی پیشی اور جرح کی شرط کو ختم کردیا تھا۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ہم یہ مناسب سمجھتے ہیں کہ انکوائری مجسٹریٹ کو ہدایت کریں کہ اپنی رپورٹ پیش کریں کہ کیا دہشت گردی کی کارروائیوں کی سازش (یعنی وہ جرم جس کا اپیل کنندہ نمبر 2 پر الزام ہے)، حوالگی کا جرم ہے تاکہ 1972 کے ایکٹ کی دفعات کو لاگو کیا جاسکے۔

یہ بھی پڑھیں: نیویارک حملوں کی منصوبہ بندی کا الزام، پاکستانی شہری پر فرد جرم عائد

امریکی فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) کی طرف سے کی گئی تحقیقات کے مطابق طلحہ ہارون اپریل 2016 میں پاکستان میں تھے اور وہیں سے اس نے نیویارک شہر میں متعدد دہشت گرد حملوں کا منصوبہ بنایا تھا۔

ایف بی آئی نے دعوی کیا تھا کہ اسلامک اسٹیٹ (داعش) گروپ کی مدد سے وہ جون 2016 میں نیو یارک شہر میں پیرس طرز کے حملے کرنا چاہتا تھا۔

اس میں کہا گیا کہ مشتبہ شخص نے 'نیو یارک شہر میں دہشت گرد حملوں کے لیے اپنے منصوبے کے متعدد ممکنہ اہداف کی نشاندہی کی تھی'، ان میں سے ایک ہدف نیو یارک سٹی سب وے جبکہ دیگر میں ٹائمز اسکوائر اور ایک کنسرٹ ہال تھا۔

واضح رہے کہ 13 نومبر 2015 کو ایک فٹ بال میچ کے دوران دہشت گردوں نے فرانس کے شہر پیرس میں سلسلہ وار حملوں کا آغاز کیا تھا۔

اس کے بعد فائرنگ اور ریسٹورانٹ، تھیٹر اور کنسرٹ ہال میں خودکش بم دھماکے ہوئے تھے جس میں کم از کم 130 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

مزید پڑھیں: پاکستانی نژاد نوجوان امریکا میں دھماکے کرنا چاہتا تھا،ایف بی آئی

ایف بی آئی نے یہ بھی دعوی کیا کہ طلحہ ہارون داعش میں شمولیت سے قبل طالبان سے وابستہ تھا۔

پاکستان میں ایک انکوائری مجسٹریٹ نے 16 جنوری 2017 کو اپنی رپورٹ میں حوالگی ایکٹ 1972 کی دفعات کے تحت اس کو امریکا کے حوالے کرنے کا کہا تھا۔

تاہم ملزم کے والد کے وکیل ادریس اشراف نے عدالت سے استدلال کیا تھا کہ اپیل کنندہ نمبر 2 کی حوالگی کی درخواست کی حمایت میں انکوائری مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیے جانے والے ثبوت ناقابل قبول ہیں۔

ان کے مطابق اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ اٹارنی اور تفتیشی افسر کے حلف نامے مکمل طور پر ایک نامعلوم شریک سازشی، امریکا میں نامعلوم خفیہ ایجنٹ اور اپیل کنندہ نمبر 2 کے درمیان رابطوں پر مبنی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حوالگی کی درخواست کی حمایت میں دائر حلف ناموں میں کہا گیا کہ خفیہ ایجنٹ کے ذریعے ان کو دی جانے والی معلومات کی بنیاد پر حلف نامے جمع کرائے گئے، اس طرح کی معلومات فطرتاً سنی سنائی ہیں اور حوالگی کے احکامات کی بنیاد نہیں بن سکتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستانی نژاد امریکی شہری کی امریکا حوالگی روک دی گئی

ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے استدلال کیا تھا کہ انکوائری مجسٹریٹ کی رپورٹ جس میں مشتبہ شخص کی حوالگی کا بتایا گیا ہے، کسی قانونی کمزوری کا شکار نہیں ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ ملزم نے امریکا میں دہشت گردی کی وارداتوں کی سازش کی تھی اور حلف ناموں کی شکل میں ریکارڈ پر کافی ثبوت پیش کیے گئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکا میں خفیہ ایجنٹ کے ساتھ رابطے میں مشتبہ شخص نے امریکا میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے منصوبے کا انکشاف کیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں