منی لانڈرنگ کیس: شہباز شریف کی ضمانت میں ایک روز کی توسیع

اپ ڈیٹ 21 ستمبر 2020
عدالت عالیہ میں جسٹس سردار احمد نعیم کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے شہباز شریف کے خلاف منی لانڈرنگ ریفرنس میں درخواست ضمانت پر سماعت کی۔ - فائل فوٹو:اے ایف پی
عدالت عالیہ میں جسٹس سردار احمد نعیم کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے شہباز شریف کے خلاف منی لانڈرنگ ریفرنس میں درخواست ضمانت پر سماعت کی۔ - فائل فوٹو:اے ایف پی

لاہور ہائیکورٹ نے منی لانڈرنگ ریفرنس میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کی عبوری ضمانت میں ایک روز کی توسیع کردی۔

عدالت عالیہ میں جسٹس سردار احمد نعیم کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے شہباز شریف کے خلاف منی لانڈرنگ ریفرنس میں درخواست ضمانت پر سماعت کی۔

دوران سماعت شہباز شریف کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ منی لانڈرنگ کیس کا ریفرنس داخل کر دیا گیا ہے اور سماعت جاری ہے۔

جسٹس سردار احمد نعیم نے سوال کیا کہ 'نیب کو ریفرنس کی کاپی ریکارڈ پر لانے پر کوئی اعتراض تو نہیں'، اس پر نیب کے وکیل عثمان راشد نے کہا کہ 'نیب کو کوئی اعتراض نہیں ہم ابھی ریکارڈ پر لے آتے ہیں'۔

مزید پڑھیں: منی لانڈرنگ ریفرنس: شہباز شریف کی اہلیہ، بیٹی اور داماد کے وارنٹ گرفتاری جاری

شہباز شریف کے وکیل نے کہا کہ 'ریفرنس آ چکا ہے پھر نیب شہباز شریف کی گرفتار کیوں کرنا چاہتی ہے، خیال یہی ہے کہ آج نیب شہباز شریف کو گرفتار ہی کرنے آئی ہے'۔

انہوں نے کہا کہ نیب اپنی انا کے لیے شہباز شریف کو گرفتار کرنا چاہتی ہے، نیب کا سارا کچا چٹھا رانا ثناءاللہ اور خواجہ سعد رفیق کے کیس میں کھل چکا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف خود بیرون ملک سے واپس پاکستان آئے اور نیب کے پاس جسمانی ریمانڈ پر رہ چکے ہیں جبکہ سارا ریکارڈ بھی نیب کو فراہم کر چکے ہیں۔

وکیل کا کہنا تھا کہ 14 فروری 2019 کو لاہور ہائیکورٹ سے شہباز شریف کی ضمانت بعد از گرفتاری منظور ہوئی، اس کے بعد ایک اور کیس، منی لانڈرنگ میں نیب نے شہباز شریف نے بلانا شروع کر دیا۔

جسٹس سردار احمد نعیم نے ریمارکس دیے کہ 'آپ اس کیس میں دلائل شروع تو کریں پھر دیکھتے ہیں'۔

شہباز شریف کے وکیل کا کہنا تھا کہ 'میرے موکل لیڈر آف اپوزیشن ہیں ایسے شخص کو انا کی تسکین کے لیے جیل بھیجنا غلط ہے، منی لانڈرنگ کی تفتیش مکمل ہو چکی ریفرنس آچکا پھر کیوں گرفتاری چاہیے، نیب عدالت کو شہباز شریف کی گرفتاری کی وجوہات بتائے'۔

نیب کے وکیل فیصل بخاری نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ شہباز شریف نے بیرون ملک چند پراپرٹی خریدی لیکن اس کے ذرائع نہیں بتائے، جب بھی شہباز شریف سے متعلقہ دستاویزات مانگیں، شہباز شریف نے فراہم نہیں کیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف نے نیب کو بیان دیا کہ وہ بیرون ملک جائیں گے تو دستاویزات لائیں گے۔

شہباز شریف کے وکیل کا کہنا تھا کہ 'نیب انوسٹی گیشن آفیسر نے خود کہا تھا کہ آپ کی تفتیش مکمل ہو چکی ہے، تاثر یہی ہے کہ آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) کے بعد نیب شہباز شریف کو گرفتار کرے گا جس پر نیب کے وکیل نے کہا کہ شہباز شریف کی درخواست ضمانت اے پی سی سے پہلے کی ہے'۔

شہباز شریف کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ عدالت پہلے گرفتاری کی وجوہات طلب کرے پھر اس کیس کو سنے اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ عدالت جس مرحلے پر مناسب سمجھے گی گرفتاری کی وجوہات طلب کرلے گی آپ دلائل تو شروع کریں۔

شہباز شریف کے وکیل امجد پرویز نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ 'نیب کی جانب سے شہباز شریف کے خلاف یہ کیس سیاسی بنیادوں پر بنایا گیا ہے، ملک کی اعلیٰ عدالتیں نیب کے کنڈکٹ کے بارے میں فیصلے دے چکی ہیں'۔

اس پر جسٹس سردار احمد نعیم کا کہنا تھا کہ 'آپ کیس کے حقائق کی بات کریں'۔

یہ بھی پڑھیں: میرے فیصلوں کی وجہ سے خاندانی کاروبار کو نقصان پہنچا، شہباز شریف

شہباز شریف کے وکیل کا کہنا تھا کہ 'چیئرمین نیب کے اختیارات استعمال کرتے ہوئے ڈی جی نیب نے خلاف قانون انکوائری کی منظوری دی، نیب نے 56 پبلک سیکٹرز کمپنیوں کے خلاف انکوائری کا آغاز کیا'۔

ان کا کہنا تھا کہ آشیانہ کیس میں شہباز شریف کو نیب کی جانب سے طلب کیا گیا تو وہ وزیر اعلیٰ ہوتے ہوئے بھی نیب میں پیش ہوئے اور بیان ریکارڈ کرایا تھا۔

انہوں نے کہا کہ 4 جولائی 2018 کو رمضان شوگر ملز کے خلاف نیب نے انکوائری کا آغاز کیا، نیب نے شہباز شریف کے خلاف صاف پانی کمپنی میں بھی انکوائری کا آغاز کیا اور انہیں بلا کر آشیانہ کیس میں گرفتار کیا تھا۔

23 انہوں نے بتایا کہ 'اکتوبر 2018 کو نیب نے شہباز شریف کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں اور فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کی رپورٹ پر نیب نے شہباز شریف کے خلاف منی لانڈرنگ کیس کی تحقیقات شروع کی تھیں'۔

انہوں نے یہ کہتے ہوئے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کی رپورٹ عدالت میں پیش کی اور کہا کہ نیب کو شہباز شریف کے خلاف آشیانہ میں ریمانڈ نہیں ملا تو نیب نے رمضان شوگر مل کیس میں گرفتاری ڈال دیا۔

وکیل کا کہنا تھا کہ 'احتساب عدالت نے نیب کی بدنیتی کو سمجھتے ہوئے رمضان شوگر مل میں شہباز شریف کا ریمانڈ نہیں دیا تھا'۔

ان کا کہنا تھا کہ '14 فروری 2019 کو لاہور ہائیکورٹ نے آشیانہ اور رمضان شوگر ملز میں شہباز شریف کی ضمانت دی، ضمانت منظور ہونے کے بعد نیب کے کہنے پر وفاقی حکومت نے شہباز شریف کا نام ای سی ایل میں شامل کر دیا'۔

بعد ازاں لاہور ہائیکورٹ نے ہی شہباز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ نیب نے آشیانہ اور رمضان شوگر ملز کیس میں ضمانت کے اخراج کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا اور کیس میں دلائل دینے کے بعد سپریم کورٹ سے درخواست واپس لے لیں۔

عدالت نے استفسار کیا کہ 'شہباز شریف کب ملک سے باہر گئے تھے' اس پر اپوزیشن لیڈر کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ وہ کینسر کے مریض ہیں اور علاج کی غرض سے بیرون ملک گئے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ نیب نے منی لانڈرنگ اور آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس میں بلایا پھر بھی شہباز شریف پیش ہوئے، 2 جون کو شہباز شریف کو نیب نے بلایا ہوا تھا چیئرمین نیب نے 28 مئی کو ہی وارنٹ گرفتاری جاری کر رکھے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کو 3 جون کو لاہور ہائیکورٹ نے عبوری ضمانت دی تھی، شہباز شریف ہر پیشی پر لاہور ہائیکورٹ اور احتساب عدالت میں پیش ہو رہے ہیں عدالت عالیہ ان کی عبوری ضمانت میں کل تک کی توسیع کر دے۔

بعد ازاں لاہور ہائیکورٹ نے شہباز شریف کے وکیل کو کل بھی دلائل جاری رکھنے کا حکم دیتے ہوئے ان کی درخواست منظور کرلی۔

منی لانڈرنگ ریفرنس

خیال رہے کہ 17 اگست کو نیب نے احتساب عدالت میں شہباز شریف، ان کے دو بیٹوں اور کنبے کے دیگر افراد کے خلاف منی لانڈرنگ کا 8 ارب روپے کا ریفرنس دائر کیا تھا۔

بعد ازاں 20 اگست کو لاہور کی احتساب عدالت نے شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ کے خلاف منی لانڈرنگ ریفرنس سماعت کے لیے منظور کیا تھا۔

ریفرنس میں بنیادی طور پر شہباز شریف پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ اپنے خاندان کے اراکین اور بے نامی دار کے نام پر رکھے ہوئے اثاثوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں جن کے پاس اس طرح کے اثاثوں کے حصول کے لیے کوئی وسائل نہیں تھے۔

اس میں کہا گیا کہ شہباز خاندان کے کنبے کے افراد اور بے نامی داروں کو اربوں کی جعلی غیر ملکی ترسیلات ان کے ذاتی بینک کھاتوں میں ملی ہیں، ان ترسیلات زر کے علاوہ بیورو نے کہا کہ اربوں روپے غیر ملکی تنخواہ کے آرڈر کے ذریعے لوٹائے گئے جو حمزہ اور سلیمان کے ذاتی بینک کھاتوں میں جمع تھے۔

یہ بھی پڑھیں: منی لانڈرنگ ریفرنس: شہباز شریف کی اہلیہ، بیٹی اور داماد کے وارنٹ گرفتاری جاری

ریفرنس میں مزید کہا گیا کہ شہباز شریف کا کنبہ اثاثوں کے حصول کے لیے استعمال ہونے والے فنڈز کے ذرائع کا جواز پیش کرنے میں ناکام رہا۔

اس میں کہا گیا کہ ملزمان نے بدعنوانی اور کرپٹ سرگرمیوں کے جرائم کا ارتکاب کیا جیسا کہ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کی دفعات اور منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 میں درج کیا گیا تھا اور عدالت سے درخواست کی گئی کہ انہیں قانون کے تحت سزا دے۔

اس معاملے میں لاہور ہائی کورٹ نے شہباز شریف کی ضمانت منظور کررکھی ہے جبکہ اسی معاملے میں گزشتہ دنوں لاہور کی احتساب عدالت نے منی لانڈرنگ ریفرنس میں شہباز شریف کی اہلیہ نصرت شہباز اور بیٹی رابعہ عمران کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں