پولیو کے خاتمے، بچوں میں قوت مدافعت کیلئے ویکسین کی متعدد خوراکیں ضروری ہیں، ماہرین

اپ ڈیٹ 30 ستمبر 2020
پاکستان اور افغانستان میں اب بھی پولیو وائرس موجود ہے — فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان اور افغانستان میں اب بھی پولیو وائرس موجود ہے — فائل فوٹو: اے ایف پی

پاکستان 2017 میں پولیو وائرس کے خاتمے کا تقریبا اعلان کرنے ہی والا تھا، اس سال، پاکستان میں گزشتہ 3 دہائی کے سب سے کم پولیو کیسز رپورٹ ہوئے تھے اور یہ دنیا میں وائرس سے متاثرہ واحد ملک رہ گیا تھا۔

تاہم اب 3 سال گزر جانے کے باوجود مقامی اور بین الاقوامی صحت کے حکام مشترکہ طور پر اس مسئلے کو حل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، رواں سال میں اب تک پولیو وائرس کے 72 کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں جبکہ 2017 میں یہ تعداد صرف 8 تھی تاہم گزشتہ سال اس حوالے سے انتہائی برا ثابت ہوا تھا جس میں 134 کیسز رپورٹ ہوئے تھے، جس نے دنیا بھر میں خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں کووڈ-19 کے خطرات کے باوجود انسداد پولیو مہم کا آغاز

پاکستان میں انسداد پولیو پروگرام (پی پی ای پی) کے مطابق ‘تنازعات، سیاسی عدم استحکام، آبادی تک پہنچنے میں دشواریوں اور خراب انفرا اسٹرکچر اس بیماری کے خاتمے میں چیلنجز کا باعث ہے’۔

اسی دوران، انکار میں اضافے کی وجہ سے مہم کو مزید نقصان پہنچا ہے، سالوں سے پولیو ویکسین کے خلاف متعدد سازشی نظریات افواہوں کی صورت میں گردش کررہے ہیں، جس میں 'پولیو ویکسین کے باعث بانجھ پن کے خطرات' سے لے کر 'یہ مغربی سازش ہے' جیسی افواہیں بھی شامل ہیں۔

ویسے تو پی پی ای پی نے ایسی افواہوں کے خاتمے اور عوام کو بچوں کے لیے ویکسین کی اہمیت سے متعلق آگاہی فراہم کرنے کے لیے متعدد کوششیں کی ہیں لیکن اس کے باوجود ویکسین سے انکار میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھا جا رہا ہے، رواں سال کے آغاز میں صحت کے حکام نے ڈان کو بتایا تھا کہ صرف ضلع پشاور میں جنوری میں ویکسین سے انکار کے 38 ہزار کیسز جبکہ فروری میں 51 ہزار کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔

سلسلہ وار ویکسین کی مہمات کیوں ضروری ہیں؟

صحت حکام نے ویکسین سے انکار کا ذمہ دار سلسلہ وار انسداد پولیو مہمات کو قرار دیا ہے، تاہم سلسلہ وار ویکسین کی مہمات کی وجہ یہ ہے کہ بچوں میں پولیو وائرس سے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ان میں قوت مدافعت میں اضافے کو مد نظر رکھتے ہوئے کم سے کم مخصوص تعداد میں منہ کے ذریعے پولیو ویکسین فراہم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

چائلڈ اسپیشلسٹ ڈاکٹر اقبال میمن کا کہنا تھا کہ پاکستان جیسے ملک میں 15 یا اس سے زائد مرتبہ او پی وی (منہ کے ذریعے ویکسین کی فراہمی) کو ان کے مناسب تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے’۔

انہوں نے مزید کہا کہ او پی وی انتہائی سستی، کثیر تعداد میں موجود اور فراہم کرنے میں آسان ہے، لہذا یہ ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک کے لیے تجویز کی جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پولیو اور کورونا سے مقابلے کے دوران 1166 ہیلپ لائن غلط معلومات اور خطرات کو کیسے دور کررہی ہے؟

انہوں نے کہا کہ ‘متعدد مرتبہ ویکسین کی فراہمی سے۔۔۔ وائلڈ پولیو وائرس کو بہتر انداز میں کنٹرول کرنے میں مدد ملے گی'، اس کا واحد چیلنج اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ کولڈ چین کی فراہمی برقرار رہے۔

ڈاکٹر میمن نے مزید کہا کہ اس کے برعکس، غیر فعال پولیو وائرس ویکسین (آئی پی وی) کو انجیکشن (نس کے) ذریعے فراہم کرنے کا انتظام کرنا چاہیے، اور یہ ایک چینلج ہے کیونکہ یہ ماہر ہاتھیوں کے ذریعے فراہم کی جانی چاہیے، یہ بہت مہنگی ہے اور اسے حاصل کرنا بھی آسان کام نہیں ہے تاہم آئی پی وی کے معاملے میں کچھ خوراکیں ہی قوت مدافعت کو بہتر بنانے کے لیے کافی ہیں۔

انہوں اس حوالے سے تفصیلات فراہم کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ہمیں دونوں، او پی وی اور آئی پی وی، ہی کی ضرورت ہے، لہذا یہ دونوں ہی پاکستان میں جاری پولیو سے تحفظ کے پروگرام کا حصہ ہے، اگر آئی پی وی موجود ہو تو او پی وی کے ساتھ اس کی دو خوراکیں کافی ہیں۔

ڈاکٹر فیصل سلیم، جو آغا خان ہسپتال میں بچوں کے ہسپتال میں انفیکشن سے متعلق بیماریوں کے ماہر ہیں، کے مطابق ‘او پی ویز کو منہ کے ذریعے فراہم کیا جائے، کیوں کہ یہ بچوں کی قوت مدافعت کو بڑھاتی ہے اور پاکستان جیسے ملک کے لیے انتہائی ضروری ہے، جہاں پولیو وائرس تاحال موجود ہے’۔

انہوں نے مزید کہا کہ دوسری جانب آئی پی وی، ایسے معاملات میں او پی وی کی مدد کرتی ہے، ان کا کہنا تھا کہ او پی وی کے بغیر آئی پی وی کی خوراک غیر مؤثر ہے۔

نومولود کے لیے بھی محفوظ

جب ڈاکٹر اقبال میمن سے سوال کیا گیا کہ کیا ویکسین نومولود کے لیے محفوظ ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ اب تک اس حوالے سے معلوم سائیڈ ایفکٹس سامنے نہیں آئے اور او پی وی کی بھی متعدد خوراکیں دینا محفوظ ہے۔

دوسری جانب ڈاکٹر سلیم نے بھی اس سے اتفاق کیا کہ ‘بچوں کی پیدائش کے فوری بعد انہیں او پی وی فراہم کی جانی چاہیے، اسے ڈوز زیرو (صفر) کہا جاتا ہے، جس کے بعد 6، 10 اور 14 ہفتوں کے بعد ویکسین دی جاتی ہے، بعد ازاں انہیں ہر مرتبہ سلسلہ وار مہمات کے دوران ویکسین فراہم کی جاسکتی ہے'۔

مزید پڑھیں: جاپان کا پاکستان میں 4 ماہ بعد پولیو مہم کی بحالی کا خیرمقدم

انہوں نے زور دیا کہ او پی وی خوراک کی زیادہ سے زیادہ فراہمی مکمل طور پر محفوظ ہے۔

ویکسین کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے ڈاکٹر سلیم نے نشاندہی کی کہ عالمی سطح پر او پی وی کے ذریعے دنیا کے تقریباً تمام ہی ممالک سے پولیو کا خاتمہ ہوچکا ہے اور پاکستان میں بھی بچوں کو پیدائش کے فوری بعد ان کے حفاظتی ٹیکوں کی طرح او پی وی کی فراہمی ضرور کی جانی چاہیے۔

کیا ویکسین بیمار بچوں کو بھی دی جاسکتی ہے؟

ڈاکٹر اقبال میمن سے جب پوچھا گیا کہ کیا بیمار بچوں کو بھی ویکسین فراہم کی جاسکتی ہے؟ تو انہوں نے تجویز دی کہ معمولی بیماری کی صورت میں ویکسین دینے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

تاہم انہوں نے مزید بتایا کہ اگر بچے اس قدر بیمار ہیں کہ انہیں ہسپتال میں داخل کرکے علاج کرنے کی ضرورت ہے تو ایسے میں تجویز ہے کہ جب تک وہ صحت یاب نہ ہوجائے تو اسے ویکسین کی فراہمی مؤخر کردی جائے۔

یہ بھی پڑھیں: مذہبی رہنماؤں نے پولیو ویکسین کے خلاف افواہیں مسترد کردیں، ٹیکہ لگوانے کی حمایت

خیال رہے کہ نائیجیریا کو گزشتہ سال پولیو سے پاک قرار دیا جا چکاہے جبکہ پاکستان اور افغانستان وہ دو ممالک ہیں جن میں اب بھی پولیو وائرس موجود ہے۔

بین الاقوامی برادری کی نظریں پاکستان کے اوپر جمی ہوئی ہیں اور ہمارے صحت کے حکام وائرس سے نجات کے لیے کوششوں میں مصروف ہیں، اب یہ والدین اور معاشرے پر ہے کہ وہ مجموعی طور پر تعاون اور بچوں کو ویکسین فراہم کرنے کی ایسی ثقافت کا انتظام کریں جس مں نہ صرف پولیو بلکہ دیگر بیماریوں کی ویکسین بھی بچوں کو فراہم کی جاسکے جو ان پر اثر انداز ہوسکتی ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں