بابری مسجد کا فیصلہ انتہا پسند بھارتی نظام عدل کی عکاسی کرتا ہے، دفتر خارجہ

اپ ڈیٹ 30 ستمبر 2020
1992 میں 16ویں صدی عیسویں کی بابری مسجد کو شہید کردیا گیا تھا— فائل فوٹو: اے پی
1992 میں 16ویں صدی عیسویں کی بابری مسجد کو شہید کردیا گیا تھا— فائل فوٹو: اے پی

پاکستان نے ایودھیا میں تاریخی بابری مسجد کو منہدم کرنے کے ذمے داروں کی 'شرمناک' بریت کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی عدلیہ انصاف کی فراہمی میں ناکام ہو گئی اور یہ فیصلہ حکومت کے زیر اثر انتہا پسند نظام عدل کی عکاسی کرتا ہے۔

دفتر خارجہ سے جاری بیان میں کہا گیا کہ پاکستان 1992 میں ایودھیا میں صدیوں پرانی بابری مسجد کو منہدم کرنے کے ذمے دار مجرموں کی شرمناک بریت کی شدید مذمت کرتا ہے۔

مزید پڑھیں: بابری مسجد شہادت کیس: ایل کے ایڈوانی سمیت تمام 32 ملزمان بری

ایودھیا میں شہید کی گئی صدیوں پرانی بابری مسجد کا فیصلہ آنے میں تین دہائیاں لگ گئیں، رتھ یاتراؤں کی جانب سے بھرپور منصوبہ بندی سے کیے گئے اس حملے کو ٹیلی ویژن پر نشر کیا گیا اور یہ سب کچھ بھارتیہ جنتا پارٹی، وی ایچ پی اور سندھ پریوار کے دیگر رہنماؤں کی ایما پر کیا گیا۔

بیان میں کہا گیا کہ اس فیصلے نے ایک مرتبہ پھر ثابت کردیا کہ ہندوتوا کے نظریے سے متاثرہ بھارتی عدلیہ انصاف کی فراہمی میں بری طرح ناکام ہو گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مسجد کی شہادت پر بھارت میں نسلی اور فرقہ ورانہ فسادات ہوئے جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد مارے گئے اور اگر اس نام نہاد سب سے بڑی جمہوریت میں ذرہ بھر بھی انصاف ہوتا تو اس مجرمانہ فعل میں ملوث افراد کو بری نہ کیا جاتا۔

دفتر خارجہ نے کہا کہ عالمی برادری، اقوام متحدہ اور متعلقہ بین الاقوامی تنظیمیں انتہا پسند ہندوتوا حکومت سے بھارت میں اسلامی ثقافتی ورثہ کے تحفظ اور ہندوستان میں اقلیتوں کے مذہبی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔

یہ بھی پڑھیں: نریندر مودی نے بابری مسجد کی متنازع اراضی پر رام مندر کا سنگِ بنیاد رکھ دیا

ترجمان نے کہا کہ یہ فیصلہ انتہا پسند بی جے پی۔آر ایس ایس حکومت کے زیر اثر انتہا پسند نظام عدل کی عکاس ہے جس میں انتہا پسندی ”ہندوتوا“ نظریہ انصاف اور بین الاقوامی اصولوں پر فوقیت رکھتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سے قبل گزشتہ سال ہندوستانی سپریم کورٹ کے جانبدارانہ فیصلے کے تحت بابری مسجد کے احاطے کو رام مندر کی تعمیر کے لیے انتہا پسند ہندو جماعتوں کے حوالے کرکے ایک غلط مثال قائم کی گئی تھی۔

ترجمان نے کہا کہ بی جے پی اور آر ایس ایس کے مشترکہ گٹھ جوڑ سے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی قابل مذمت اقدامات، ہندوستان کی تیزی سے ہندو راشٹر کی جانب تبدیلی کا اشارہ ہے جہاں اقلیتوں کو دوسرے درجے کا شہری قرار دیا گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بی جے پی اور آر ایس ایس کا مسلم مخالف ایجنڈا سب سے زیادہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں نظر آتا ہے جو مسلسل فوجی محاصرے میں ہے اور بی جے پی مقبوضہ علاقے کے آبادیاتی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کے لیے اپنی مذموم پالیسیاں نافذ کرتی رہتی ہے۔

مزید پڑھیں: بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر پر پاکستان کا اظہار مذمت

ترجمان نے کہا کہ آر ایس ایس، بی جے پی حکومت اور سنگھ پریوار منظم انداز میں ہندوستان میں مساجد کی مسلسل بے حرمتی اور انہدام کے ذمہ دار ہے، حتیٰ کہ کووڈ 19 وبائی بیماری کے دوران بھی ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے مسلمانوں کی عبادت گاہوں پر حملے جاری رہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایودھیا کے جانبدارانہ فیصلے کے بعد ہندو انتہا پسند بی جے پی، آر ایس ایس کی سرپرستی میں اب متھورا میں واقع کرشنا مندر کے ساتھ شاہی عید گاہ مسجد کو ہٹانے کے ساتھ ساتھ کرشنا مندرکو پوری 13.37 ایکڑ اراضی کی ملکیت دینے کے لیے کوشاں ہیں۔

پاکستان نے عالمی برادری، اقوام متحدہ اور متعلقہ بین الاقوامی تنظیموں سے مطالبہ کیا کہ وہ انتہا پسند ہندوتوا حکومت سے ہندوستان میں اسلامی ثقافتی ورثہ کے تحفظ کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور اقلیتوں کے مذہبی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔

واضح رہے کہ آج بھارت کی خصوصی عدالت نے بابری مسجد پر حملہ کرنے کے الزام سے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنما اور سابق نائب وزیراعظم لال کرشنا (ایل کے) ایڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی سمیت تمام 32 ملزمان کو بری کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: عدالت کا بھارت میں 11 پاکستانی ہندوؤں کے قتل کے خلاف درخواست پر وفاق کو نوٹس

ان تمام افراد پر 1992 میں 16ویں صدی عیسویں کی بابری مسجد کو شہید کرنے اور ہندو مسلم فسادات کو بھڑکانے کے الزامات تھے جس کے نتیجے میں 3 ہزار افراد مارے گئے تھے۔

مذکورہ مقدمہ بھارتی عدالت میں 28 سال تک چلا اور آج سنائے گئے فیصلے میں عدالت نے قرار دیا کہ مسجد کی شہادت باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت نہیں کی گئی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں