ادویات کی قیمتوں میں اضافہ، غریب طبقے کو علاج مکمل کروانے میں مشکلات کا سامنا

اپ ڈیٹ 02 اکتوبر 2020
حکومت کے فیصلے سے بلند فشار خون، ذیابیطس کے مریضوں کے استعمال کی ادویات کی قیمت میں بھی اضافہ ہوا—فائل فوٹو: اے ایف پی
حکومت کے فیصلے سے بلند فشار خون، ذیابیطس کے مریضوں کے استعمال کی ادویات کی قیمت میں بھی اضافہ ہوا—فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: ادویات کی قیمتوں میں 260 فیصد تک اضافے نے مریضوں کی بڑی تعداد کو ادویات کی مقدار کم کرنے یا علاج چھوڑنے پر مجبور کردیا جبکہ بڑی دوا ساز کمپنیوں کا ماننا ہے کہ اس اقدام کے باعث مارکیٹ میں ادویات کی دستیابی یقینی بنائے گی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق فارماسسٹ اور کچھ ادویات بنانے والوں نے الزام عائد کیا کہ دوا سازی کی صنعت ان کی قیمت کو خام مال کی قیمت سے منسلک کرنے کے بجائے بجلی کی لاگت اور امریکی ڈالر سے منسلک کر کے اپنے کارڈ کھیل رہی ہے جبکہ خام مال کی قیمتیں تیزی سے 2 ہزار ڈالر سے 25 ڈالر تک کم ہوچکی ہیں۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان کی رائے یہ تھی کہ ادویات کی قیمتوں میں اضافہ مقامی مارکیٹ میں ان کی قلت کو ختم کرنے میں مدد فراہم کرے گا کیوں کہ بہت سے مریضوں کو درآمد کردہ ادویات خریدنی پڑتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت نے زندگی بچانے والی 94 ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری دے دی

کچھ نمایاں دوا ساز کمپنیوں کا ماننا ہے کہ حکومت نے ادویات کی قیمتوں میں اضافے کا بروقت اور اہم فیصلہ کیا ہے اور خبردار کیا کہ اس فیصلے پر یو ٹرن مستقبل قریب میں دوا سازی کی صنعت میں بھاری سرمایہ کاری کے امکانات کو ختم کرسکتا ہے۔

خیال رہے کہ 22 ستمبر کو وفاقی کابینہ نے زندگی بچانے والی 94 ادویات کی قیمتوں میں 260 فیصد تک اضافے کی منظوری دی تھی جس کے بعد ایک پریس کانفرنس میں معاون خصوصی صحت نے یہ فیصلہ ادویات کی قلت کو دور کرنے کے لیے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان (ڈریپ) کی سفارش پر کیا گیا۔

اس ضمن میں ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین ڈاکٹر مظہر قیوم کا کہنا تھا کہ 'وزیراعظم کا یہ بیان کے ادویات کی دستیابی یقینی بنانے کے لیے قیمتوں میں اضافہ کیا گیا، ناقابل قبول ہے، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت بدعنوان مافیا کے ہاتھوں بلیک میل ہورہی ہے'۔

نئی قیمتیں

مارکیٹ میں اونچائی کی وجہ سے طبیعت خرابی کو روکنے کے لیے استعمال ہونے والی ایسیٹازولمائیڈ کی قیمت 60 روپے سے بڑھ کر 219 روپے، انفیکشن کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی اینٹی بائیوٹک ڈوکسی سائیکلین کی قیمت 233 روپے سے بڑھ کر 400 روپے، متعدد بیکٹیریل انیکشن کے علاج کے لیے استعمال ہونے ولای سیفراڈائین کی قیمت 58 روپے سے بڑھ کر 115 ہوگئی ہے۔

مزید پڑھیں: حکومت سندھ نے وفاق کا ادویات کی قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ مسترد کردیا

اسی طرح مانع حمل اور دیگر امراض نسواں کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی دوا نوریتھیسٹرون کی قیمت 62 روپے سے بڑھ کر 100 روپے، مردوں میں پروسٹیٹ غدود بڑھنے کے علاج کے لیے استعمال ہونے والے ٹیمسولوسن کیپسول کی قیمت 786 روپے سے بڑھ کر ایک ہزار 80 روپے، وٹامن بی کی کمی کو دور کرنے والی نیوروبیون گولی کی قیمت 535 روپے سے بڑھ کر 977 ہوگئی۔

علاوہ ازیں بلند فشار خون، ذیابیطس کے مریضوں کے استعمال کی ادویات کی قیمت میں بھی اضافہ ہوا۔

ڈریپ کے کردار پر سوال

مذکورہ صورتحال ڈرگ لائیر فورم پاکستان کے صدر اور فارماسسٹ نور مہر کا کہنا تھا کہ ڈریپ ادویات کی قیمتوں کی نگرانی میں دلچسپی نہیں لے رہا۔

انہوں نے کہا کہ 3 جنوری 2017 کو ڈریپ نے کمپنیوں کو ایک خط لکھ کر ادویات کی قیمتیں اور رجسٹریشن نمبر فراہم کرنے کا کہا تھا کہ جس کے بعد 12 ہزار ادویات کی قیمتیں ویب سائٹ پر پوسٹ کی گئی تھیں لیکن پھر انہیں نامعلوم وجوہات کی بنا پر ہٹا دیا گیا اور اب صرف ایک ہزار 100 ادویات کے صرف رجسٹریشن نمبر ویب سائٹ پر موجود ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ادویات کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں درخواست

ادویات کے ایک مینوفیکچرر نے کہا کہ دوا ساز صنعت خام مال کی قیمت ظاہر نہیں کررہی جو بہت حد تک کم ہوئی ہیں بلکہ ان کے بجائے بجلی کی قیمت اور امریکی ڈالر سے ادویات کی قیمتیں منسلک کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کچھ سال قبل کچھ سالٹس (خام مال) 2 ہزار روپے کلو میں فروخت ہورہا تھا لیکن اب اس کی قیمت صرف 25 سے 30 ڈالر فی کلو ہے۔

انہوں نے تجویز دی کہ رقم کے تبادلے کی نگرانی کے لیے سالٹ کی قیمت مقرر کردی جائے کیوں کہ کچھ کمپنیاں ہزاروں ڈالر کی سالٹس کی خریداری ظاہر کررہی ہیں جس کے نتیجے میں پاکستان سے بڑا زر مبادلہ باہر جارہا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں