امریکا، کابل-اسلام آباد کے درمیان ’سائیڈ ایگریمنٹ‘ کیلئے پُرامید

اپ ڈیٹ 08 اکتوبر 2020
امریکی نمائندہ خصوصی نے کہا کہ اگر کابل اور طالبان معاہدے کرنے میں کامیاب ہوگئے تو وہ پاکستان کے لیے اقتصادی مراعات دیکھ رہے ہیں —فائل فوٹو: اے پی
امریکی نمائندہ خصوصی نے کہا کہ اگر کابل اور طالبان معاہدے کرنے میں کامیاب ہوگئے تو وہ پاکستان کے لیے اقتصادی مراعات دیکھ رہے ہیں —فائل فوٹو: اے پی

واشنگٹن: امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل نے اس اُمید کا اظہار کیا ہے کہ کابل حکومت پاکستان کے ساتھ سائیڈ ڈیل کرسکتی ہے، جس کی طالبان کے لیے تاریخی حمایت نے طویل عرصے تک تعلقات کو امتحان میں ڈالے رکھا۔

ڈان اخبار میں شائع ہونے والیرپورٹ کے مطابق ایک جانب امریکا نے طویل ترین جنگ کے خاتمے کے لیے افغانستان سے اپنی افواج کا انخلا شروع کردیا ہے جبکہ دوسری جانب طالبان اور افغان حکومت نے امن مذاکرات کا آغاز کردیا ہے جس کی رفتار خاصی سست ہے۔

افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سفارتکاری میں ’مددگار‘ رہے۔

یہ بھی پڑھیں:جو عناصر خطے میں امن نہیں چاہتے ان پر نگاہ رکھنی ہو گی، وزیر خارجہ

یونیورسٹی آف شکاگو کے پیئرسن انسٹیٹیوٹ میں دوحہ سے بذریعہ ویڈیو لنک ایک فورم میں شرکت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ہم داخلی امن کے حوالے سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک معاہدے کی کوشش کررہے ہیں‘۔

زلمے خلیل زاد نے بتایا کہ ’دونوں ممالک نے اس بات اتفاق کی کہ ’وہ ایک دوسرے کے خلاف شدت پسند تنظیموں یا ایک دوسرے کی سیکیورٹی کے لیے خطرہ بننے والے گروہوں کو اپنی سرزمین کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے‘۔

امریکی نمائندہ خصوصی نے کہا کہ اگر کابل اور طالبان معاہدے کرنے میں کامیاب ہوگئے تو وہ پاکستان کے لیے اقتصادی مراعات دیکھ رہے ہیں۔

مزید پڑھیں:پاکستان، افغانستان کا سرپرست نہیں دوست بننا چاہتا ہے، وزیر خارجہ

انہوں نے مزید کہا کہ ’ایسی معاشی وجوہات ہیں جو خطے کے لیے تبدیلی کا باعث ہوں گی لیکن اس کے لیے افغانستان میں امن آنا چاہیے‘۔

خیال رہے کہ افغانستان میں 19 سال سے جاری طویل جنگ کے خاتمے کے لیے امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے طویل دور کے بعد رواں برس 29 فروری کو معاہدہ ہوا تھا۔

معاہدے کے 2 اہم نکات میں غیر ملکی افواج کا افغان سرزمین سے انخلا اور بین الافغان مذاکرات کا آغاز تھا جس کا آغاز 12 ستمبر کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہوچکا ہے۔

دوسری جانب افغان امن کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ نے حال ہی میں پاکستان کا 3 روزہ اہم دورہ کیا تھا جس کے دوران ایک موقع پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے واضح کیا تھا کہ پاکستان، افغانستان کا سرپرست نہیں دوست بننا چاہتا ہے، یہ تبدیلی کا نمونہ ہے اور اگر ہمیں امن کے ساتھ رہ کر مشترکہ مستقبل تعمیر کرنا ہے تو یہ اس بات کی پہچان کا نیا احساس ہے۔

یہ بھی پڑھیں: افغان تنازع کا فوجی حل نہیں، سیاسی مذاکرات ہی آگے بڑھنے کا راستہ ہیں، عارف علوی

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا افغان عوام کے لیے واضح پیغام ہے کہ ہمارا کوئی پسندیدہ نہیں اور نہ ہم آپ کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ بین الافغان مذاکرات اور بات چیت کے نتیجے میں جو بھی اتفاق رائے ہوگا ہم پاکستانی عوام افغانستان کے عوام کی خواہش کو قبول کریں گے اور یہ ہمارے لیے اہم ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں