کورونا کے دوبارہ پھیلاؤ کا خطرہ، پنجاب کے 36 اضلاع میں مائیکرو اسمارٹ لاک ڈاؤن نافذ

اپ ڈیٹ 08 اکتوبر 2020
ماہرین صحت نے ایس او پیز پر عملدرآمد نہ کیے جانے پر وائرس کے پھیلاؤ کا خدشہ ظاہر کیا ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی
ماہرین صحت نے ایس او پیز پر عملدرآمد نہ کیے جانے پر وائرس کے پھیلاؤ کا خدشہ ظاہر کیا ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی

لاہور: مثبت کیسز کی تعداد میں اچانک اضافے کے بعد کورونا وائرس کی دوسری لہر کے خوف سے حکومت پنجاب نے وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے صوبے کے تمام 36 اضلاع میں ’مائیکرو اسمارٹ لاک ڈاؤن‘ نافذ کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کیسز میں خاص طور پر پنجاب میں تعلیمی اداروں کو دوبارہ کھولنے اور عوامی مقامات، سرکاری دفاتر اور کاروباری مقامات پر کووڈ 19 کے رہنما اصولوں کی مسلسل خلاف ورزی کے بعد اضافے کا مشاہدہ کیا گیا۔

مزید پڑھیں: کورونا کے ہسپتال میں زیرعلاج 80 فیصد سے زائد مریضوں کو اعصابی علامات کا سامنا

36 اضلاع میں سے صورتحال خصوصاً لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد، گوجرانوالہ، حافظ آباد اور گجرات میں زیادہ پریشان کن ہے جہاں کووڈ-19 کے سب سے زیادہ مثبت کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق حکومت پنجاب نے صوبے کے تمام 36 اضلاع میں 856 مقامات پر 'مائیکرو سمارٹ لاک ڈاؤن' نافذ کردیے ہیں جس میں 7 ہزار 295 شہریوں کو ان کی رہائش گاہوں تک محدود کردیا گیا ہے، لاک ڈاؤن کی تجویز ان اضلاع میں کووڈ 19 کے ایک ہزار 235 مثبت کیسز کی نشاندہی کے بعد دی گئی تھی۔

لاہور میں 520 مریضوں کے ساتھ دو مائیکرو اسمارٹ لاک ڈاؤن کی تجویز دی گئی اور راولپنڈی میں 177 سے زیادہ مثبت کیسز کے بعد 123 مائیکرو اسمارٹ لاک ڈاؤن سامنے آئے۔

اسی طرح گوجرانوالہ میں 66 کووڈ 19 مریضوں کے لیے 42، فیصل آباد میں 64 مریضوں کے لیے 42، گجرات میں 64 مریضوں کے لیے 42، حافظ آباد میں 66 مریضوں کے لیے 40، جھنگ میں 46 مریضوں کے لیے 40، ملتان میں 47 مریضوں کے لیے 26 ایسے مائیکر لاک ڈاؤن کی تجویز پیش کی گئی، ننکانہ صاحب میں 32 مریضوں کے لیے 23، منڈی بہاؤالدین میں 22 مریضوں کے لیے 12، ساہیوال میں 19 مریضوں کے لیے 12، سرگودھا میں 32 مریضوں کے لیے 24، سیالکوٹ میں 23 مریضوں کے لیے 15، ٹوبہ ٹیک سنگھ میں 19 مریضوں کے لیے 11 اور کووڈ 19 کے 32 مریضوں کے لیے بہاولپور میں 12 مائیکرو اسمارٹ لاک ڈاؤن نافذ کیے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: 'امیر ممالک میں کورونا سے متاثر زندگی 2021 کے آخر تک معمول پر آسکتی ہے'

ایک عہدیدار نے بتایا کہ کچھ دن قبل نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے اجلاس میں یہ اعداد و شمار بھی پیش کیے گئے تھے جہاں عہدیداروں نے پنجاب میں بڑھتے ہوئے کیسز پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ مختلف صحت کی سہولیات کے طبی ماہرین نے بھی کووڈ 19 کے بڑھتے ہوئے معاملات کے بارے میں سرکاری حکام کو آگاہ کیا اور دوسری لہر سے بچنے کے لیے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا، ماہرین کا مؤقف تھا کہ جزوی طور پر لاک ڈاؤن کوئی حل نہیں ہے اور انہوں نے خط کی روح کے مطابق رہنما اصولوں پر عمل درآمد میں حکومت کی رٹ کو یقینی بنانے اور اس بیماری کے حقیقی اثرات کا تجزیہ کرنے کی جانچ کی صلاحیت میں اضافے کی تجویز پیش کی۔

دریں اثنا پرائمری اور ثانوی محکمہ صحت نے گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران صوبے بھر سے کووڈ19 کے 115 نئے کیسز کی تصدیق کی جن کی وبا پھیلنے کے بعد سے اب تک یہ تعداد ایک لاکھ 148 ہو گئی ہے۔

اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ اسی عرصے میں مزید دو افراد کی موت کے بعد پنجاب میں اموات کی تعداد 2 ہزار 242 ہو گئی۔

مزید پڑھیں: کیا فیس ماسک کا استعمال نقصان دہ بھی ہوسکتا ہے؟

محکمے نے دعویٰ کیا کہ پچھلے 24 گھنٹوں کے دوران صوبے بھر میں 10ہزار 66 ٹیسٹ کیے گئے۔

صوبے میں سب سے زیادہ 50 ہزار 217 کیسز لاہور میں رپورٹ ہوئے جہاں وبائی امراض پھیلنے کے بعد اموات کی تعداد 868 ہو گئی ہے۔

دوسری جانب یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کی احتجاجی ریلیوں اور دیگر عوامی اجتماعات اس بیماری سے کے پھیلاؤ کا سبب بن سکتے ہیں۔

وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ کے ایک عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت اب کراچی میں لاک ڈاون مسلط کرنے کی طرف گامزن ہے لیکن بڑے پیمانے پر احتجاجی ریلیوں کی منصوبہ بندی کر رہی ہے جو پنجاب میں کورونا وائرس کے کیسز میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستانی عوام کو کورونا سے بچانے ’ٹرانس جینڈر سپر ہیرو‘ میدان میں آگئے

دوسری طرف حکومت پنجاب عوامی اجتماعات، احتجاجی ریلیوں یا عرس کے لیے نئے ایس او پیز تیار کر رہی ہے اور متعلقہ ضلعی ڈپٹی کمشنروں کو ہدایت کر رہی ہے کہ وہ اجتماعات کے منتظمین سے ان کے نفاذ کو یقینی بنائے۔

اس سے قبل وزیر اعلیٰ ہاؤس میں کورونا وائرس سے متعلق کابینہ کی کمیٹی میں کورونا وائرس کی بحالی پر قابو پانے میں ناکامی پر تبادلہ خیال کیا گیا، سیکریٹری پرائمری اور سیکنڈری ہیلتھ کیئر کیپٹن ریٹائرڈ محمد عثمان نے سندھ میں مثبت معاملات میں اضافے کے بعد حفاظتی اقدامات اٹھانے کی ضرورت پر زور دیا، انہوں نے کہا کہ اگر لوگ احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کریں گے تو زیادہ خطرے والے اضلاع اور علاقوں میں اسمارٹ لاک ڈاؤن دوبارہ نافذ کیا جاسکتا ہے۔

اجلاس میں وزیر قانون بشارت راجہ نے افسوس کا اظہار کیا کہ صوبے بھر میں عوامی اجتماعات میں کسی قسم کے احتیاطی اقدامات یعنی ماسک پہننے اور سماجی فاصلے کا مشاہدہ نہیں کیا گیا، انہوں نے متعلقہ ڈپٹی کمشنرز کو ہدایت کی کہ وہ نئے ایس او پیز پر مکمل عمل درآمد کو یقینی بنائیں۔

مزید پڑھیں: ملک میں کورونا وائرس کے 594 نئے کیسز، مزید 672 مریض صحتیاب

راجہ بشورت نے مزید کہا کہ یہاں تک کہ شادی ہالوں میں بھی ایس او پیز کی دھجیاں اڑائی جارہی تھیں جو وائرس کے پھیلاؤ کا خدشہ پیدا کررہی تھی، انہوں نے صوبہ بھر کی ضلعی انتظامیہ کو ہدایت کی کہ وہ شادی ہالوں، تعلیمی اداروں اور تمام عوامی مقامات پر ایس او پیز کے نفاذ کو یقینی بنائیں اور میڈیا میں بڑے پیمانے پر عوامی بیداری مہم بھی چلائیں۔

وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے بھی اجلاس میں شرکت کی۔

تبصرے (0) بند ہیں