مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس نے کہا ہے کہ امیر ممالک میں زندگی 2021 کے آخر میں اس صورت میں معمول پر آجائے گی، اگر ایک کووڈ 19 ویکسین موثر ہونے کے ساتھ ساتھ جلد تیار ہوکر بڑے پیمانے پر مناسب طریقے سے تقسیم ہوگئی۔

وال اسٹریٹ جرنل سی ای او کونسل سے خطاب میں بل گیٹس نے کہا 'اگلے سال کے آخر تک صورتحال لگ بھگ معمول پر آسکتی ہے اور یہ بہترین منظرنامہ ہے'۔

انہوں نے مزید کہا 'ہم ابھی نہیں جانتے کہ کب تک یہ ویکسینز کامیاب ہوں گی، جبکہ ان کی بڑے پیمانے پر تیاری کے لیے بھی وقت درکار ہوگا اور امریکا اور دیگر ممالک میں ان کے کوٹے کو مختص کرنا بھی ایک بڑا چیلنج ہوگا'۔

مغرب میں اس وقت فیزر/بائیو این ٹیک اور آسترا زینیکا/آکسفورڈ یونیورسٹی کی ویکسینز ریگولیٹری منظوری کی دوڑ میں سرفہرست ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے بھی 6 اکتوبر کو توقع ظاہر کی تھی کہ کووڈ 19 کی روک تھام کے لیے ایک ویکسین رواں سال کے آخر تک تیار ہوسکتی ہے۔

بل گیٹس کے ادارے بل اینڈ ملینڈا گیٹس نے گزشتہ ماہ 16 فارماسیوٹیکل کمپنیوں سے ایاک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

بل گیٹس کے مطبق یہ معاہدہ بے نظیر رفتار سے ویکسین کی تیاری کے عمل کو تیز کرنے کے عزم کا حصہ ہے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ منظور شدہ ویکسینز جس حد تک جلد ممکن ہو، بڑے پیمانے پر تقسیم ہوسکے۔

مائیکرو سافٹ کے بانی نے کہا 'ہم روس اور چین کے ساتھ بھی بات کررہے ہیں، ان کی تیسرے مرحلے کے ٹرائل کی کسی بھی ویکیسینز کی نگرانی معتبر ریگولیٹرز نہیں کررہے'۔

انہوں نے کہا کہ سائنسی نقطہ نظر سے روسی اور چینی ویکسینز مستند پراجیکٹس ہیں مگر قابل احترام تیسرے مرحلے کی تحقیق کے بغیر ان کی کشش روس اور چین سے باہر محدود ہوگی۔

انہوں نے مزید کہا 'مغربی کمپنیاں تیسرے مرحلے کی تحقیق میں زیادہ آگے ہیں اور اگر ان کے نتائج اچھے آتے ہیں اور کم قیمت میں انہیں پیش کیا جاتا ہے، تو مجھے نہیں لگا کہ روسی یا چینی ویکسینز ان ممالک سے باہر زیادہ فروخت ہوسکیں گی'۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کونسے ممالک نے کورونا وائرس کی وبا کے دوران صحت اور معیشت کی ضروریات کے توازن میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا تو انہوں نے کہا 'جنوبی کوریا اور آسٹریلیان، کیونکہ اس وبا کے دوران آغاز میں تھوڑی ذہانت سے بہت بڑا فرق پیدا کرنے میں مدد ملی'۔

اس سے قبل اگست میں بھی بل گیٹس نے پیشگوئی یا اپنا خیال ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا اس وائرس کے حوالے سے تشخیص، نئے طریقہ علاج اور ویکسین پر کام واقعی بہت متاثرکن ہے، اور اس کو دیکھ کر مجھے لگتا ہے کہ امیر ممالک میں ممکنہ طور پر 2021 کے آخر تک اس پر قابو پالیں گے جبکہ باقی دنیا میں اس کا خاتمہ 2022 کے آخر تک ہوگا'۔

ان کے مطابق اگر ان کی پیشگوئی درست ہوئی بھی تو اس سے متاثر ممالک اقتصادی ترقی اور مختلف امراض جیسے ملیریا، پولیو اور ایچ آئی وی کے حوالے سے پیشرفت کی بجائے کئی سال پیچھے چلے جائیں گے۔

انہوں نے توقع ظاہر کی کہ ایک ویکسین جلد تیار ہوجائے گی مگر بڑے پیمانے پر تیاری کے مسائل کے باعث اس وقت تیاری کے مراحل سے گزرنے والی کچھ ویکسینز ممکنہ طور پر صرف امیر ممالک کو ہی دستیاب ہوں گی۔

ان کا کہنا تھا 'یہ مسئلہ 5 برس تک برقرار رہ سکتا ہے اور صرف قدرتی مدافعت ہی ہماری واحد امید ہوگی، جانوروں اور طبی ٹرائل کے ڈیٹا سے نظر آتا ہے کہ یہ بیماری ویکسین سے روک جاسکتی ہے'۔

جہاں تک اس بیماری کے شکار افراد کے علاج کی بات ہے تو بل گیٹس نے اینٹی وائرل دوا ریمیڈیسیور اور ڈیکسامیتھاسون کے بارے میں بات کی۔

انہوں نے کہا 'دیگر اینٹی وائرلز 2 سے 3 مہینوں کی دوری پر ہیں، اینٹی باڈیز کی تیاری میں بھی 2 سے 3 ماہ کا عرصہ درکار ہوسکتا ہے، ہم اب تک 2 ادویات سے ہسپتال سے علاج میں بہتری کو دریافت کرچکے ہیں، جن میں ریمیڈیسیور اور ڈیکسامیتھاسون شامل ہیں'۔

جولائی میں ایک انٹرویو کے دوران بل گیٹس نے کہا تھا کہ اینٹی وائرل ادویات اور اینٹی باڈی تھراپیز کی بدولت نئے کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 سے ہونے والی اموات کی شرح میں اس سال کے آخر تک نمایاں کمی لانے میں مدد مل سکے گی۔

سی این بی سی کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں بل گیٹس نے کہا 'اس بات کا قوی امکان ہے کہ رواں سال کے آخر تک نئے ٹولز کے امتزاج سے اموات کی شرح میں نمایاں کمی آجائے، ان میں سے بیشتر اس وقت کے لیے ہوں گے جب کووڈ 19 کی سنگین علامات نظر آئیں جبکہ ان کی مدد سے آئی سی یو میں جانے سے قبل ہی مریضوں کا علاج ممکن ہوجائے گا'۔

بل گیٹس کا کہنا تھا 'ایسی 2 مزید اینٹی وائرل ادویات ہیں جو آئی وی فیوژن کی بجائے منہ کے ذریعے استعمال کرائی جاسکیں، تو اس سال کے آکر تک 2 مزید اینٹی وائرل ادویات کی نشاندہی ہوسکتی ہے یا ان کے فارمولے میں کچھ تبدیلیاں کی جاسکتی ہیں'۔

تبصرے (0) بند ہیں