چارسدہ میں ڈھائی سالہ زینب کا مبینہ ریپ کے بعد قتل

اپ ڈیٹ 08 اکتوبر 2020
پرانگ پولیس کو اطلاع ملی کہ بچی کی لاش جبا کرونا کے علاقے میں پڑی ہوئی ہے— فوٹو: ڈان نیوز
پرانگ پولیس کو اطلاع ملی کہ بچی کی لاش جبا کرونا کے علاقے میں پڑی ہوئی ہے— فوٹو: ڈان نیوز

صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع چارسدہ میں ڈھائی سالہ بچی زینب کی لاش ملی ہے جسے مبینہ طور پر ریپ کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیا گیا۔

علاقہ مکینوں اور چارسدہ پولیس کا کہنا تھا کہ بچی منگل کی شام گھر کے باہر دیگر بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے شیخ کلے قلعہ کے علاقے سے لاپتا ہو گئی تھی۔

مزید پڑھیں: کراچی: 5 سالہ بچی کا ریپ کے بعد قتل، متعدد مشتبہ افراد گرفتار

بدھ کو پرانگ پولیس کو اطلاع ملی کہ بچی کی لاش جبا کرونا کے علاقے میں پڑی ہوئی ہے، پرانگ اور داؤد زئی پولیس نے لاش برآمد کی اور اسے پوسٹ مارٹم کے لیے پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال منتقل کیا۔

چارسدہ کے ضلعی پولیس افسر محمد ثاقب خان نے کہا کہ پولیس نے ابتدائی طور پر بچی کے والد کی مدعیت میں نامعلوم اغوا کاروں کے خلاف چارسدہ کے پرانگ پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آر درج کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ لاش ملنے کے بعد ایف آئی آر میں قتل کے جرم میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 302 بھی شامل کر لی گئی۔

ثاقب خان نے کہا کہ ابتدائی تفتیش سے پتا چلا ہے کہ بچی کا قتل سے قبل مبینہ طور پر ریپ کیا گیا اور اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور اس کے جسم پر تشدد کے نشانات بھی تھے، پولیس میڈیکل رپورٹ کا انتظار کر رہی ہے جس کے بعد پاکستان پینل کوڈ کی مزید دفعات کو مقدمے کا حصہ بنایا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: سیالکوٹ: گینگ ریپ کا نشانہ بننے والی 8 سالہ بچی دم توڑ گئی

زینب کے والد نے کہا کہ ان کے اہلخانہ کی کسی سے دشمنی نہیں اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ملزمان کو گرفتار کریں تاکہ وہ ان سے پوچھ سکیں کہ ان کی بیٹی نے ان کا کیا بگاڑا تھا جو انہوں نے یہ جرم کیا۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج میری زینب ہے، کل کسی اور زینب کو اس کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے کمسن بچی کے ساتھ مبینہ زیادتی اور قتل کے واقعے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے انسپکٹر جنرل (ٓئی جی) پولیس ڈاکٹر ثنااللہ عباسی اور دیگر متعلقہ حکام کو ملوث افراد کو فوری طور پر گرفتار کرنے کا حکم دیا ہے۔

مزید پڑھیں: لاہور: ٹک ٹاک پر دوست بنانے کے بعد لڑکی کا 'گینگ ریپ'

اپنے بیان میں وزیر اعلیٰ نے واقعے کو انتہائی افسوسناک، انسانیت سوز اور دلخراش قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس گھناﺅنے واقعے میں ملوث افراد کسی صورت قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکیں گے، انہیں قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا اور نشان عبرت بنایا جائے گا۔

متاثرہ خاندان سے دلی ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے یقین دلایا کہ صوبائی حکومت ان کے ساتھ کھڑی ہے اور انہیں مکمل انصاف دیا جائے گا۔

ایک اور زینب جرم کا شکار

ادھر سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ’زینب کے لیے انصاف’ اور ’ایک اور زینب’ کے ہیش ٹیگ ٹرینڈ کر رہے ہیں اور صارفین نے ملک میں بچوں کے قتل پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔

سوشل میڈیا پر ڈھائی سالہ بچی کی تصویر زیر گردش ہے جس میں اس واقعے کا 2018 میں قصور میں ریپ کے بعد قتل کی گئی ننھی زینب کے کیس سے موازنہ کیا جا رہا ہے۔

قصور کی زینب امین 4 جنوری 2018 کو لاپتا ہوئی تھی جس کے بعد ایک پولیس کانسٹیبل کو اس کی لاش شہباز خان روڈ پر واقع کچرہ کنڈی سے ملی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: 6 سالہ مروہ کے ریپ و قتل میں ملوث ملزمان کے فنگر پرنٹس میچ کر گئے

پولیس کا کہنا تھا کہ لڑکی کو چار سے پانچ دن قبل ہی قتل کردیا گیا ہے۔

ایک سال کے عرصے میں یہ قصور میں ہونے والا 12واں اس طرح کا واقعہ تھا جس پر عوام نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا تھا اور ملک بھر میں اس واقعے کے خلاف احتجاج بھی کیا گیا تھا۔

قصور میں اس واقعے کے بعد فسادات شروع ہو گئے تھے جس میں دو افراد مارے گئے تھے اور ٹوئٹر پر بچوں کو جرم کا نشانہ بنانے والوں کے خلاف مسلسل آواز اٹھائی جا رہی ہے۔

مزید پڑھیں: راولپنڈی: 7 سالہ بچی کا ریپ کے بعد قتل، چچا گرفتار

زینب ریپ و قتل کیس کے دو سال بعد قومی اسمبلی سے زینب الرٹ بل منظور کیا گیا تھا جس مں بچوں سے زیادتی، تشدد اور قتل کے واقعات کی تیز تر تفتیش اور ملزمان کو فوری سزا کو یقینی بنایا گیا ہے۔

سندھ پولیس نے بھی اس سلسلے میں موبائل فون ایپلی کیشن 'دی زینب الرٹ‘ تیار کی ہے جس سے بچوں سے جرائم میں ملوث افراد کا ڈیٹابیس تیار کرنے میں مدد ملے گی۔

ملک میں نئے قوانین بنائے جانے کے ساتھ ساتھ ہر سطح پر احتجاج کے باوجود بچوں سے زیادتی، تشدد اور انہیں قتل کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور پاکستان میں سال 2020 کے پہلے حصے میں ایک ہزار 489 یعنی روزانہ کم از کم 8 بچوں کو جنسی استحصال کا نشانہ بنایا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: زینب الرٹ بل قومی اسمبلی سے منظور

بچوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیم 'ساحل' کے مطابق ان میں سے 331 بچوں کو اغوا، 160 کو ریپ، 233 سے غیر فطری تعلق قائم کیا گیا، 69 کا گینگ ریپ جبکہ 104 سے گینگ نے غیر فطری تعلق قائم کیا۔

ساحل کے اعداد و شمار کے مطابق ان میں سے 13 لڑکوں اور 12 لڑکیوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیا گیا جبکہ ایک بچی کا گینگ ریپ کے بعد قتل کیا گیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Murad Oct 08, 2020 05:34pm
Qasur or Charsadda... we need to eradicate these animals from among us... and save our kids...