ماسوائے اس وقت جب لاطینی اور یونانی زبان سے واقف ہوں یا میڈیکل اسکول میں پڑھتے رہے ہوں، کچھ الفاظ 'sequelae' (کسی سابقہ بیماری یا انجری کے اثرات)، 'encephalopathy' (ایک دماغی مرض) اور 'anosmia' (سونگھے کی حس ختم ہوجانا) آپ کے لیے بے معنی ہو۔

مگر اب یہ تبدیل ہونے والا ہے، کم از کم اس صورت میں جب آپ کووڈ 19 کے بارے میں جاننے کی کوشش کررہے ہوں، جتنا علم ہوگا اتنے ہی فکرمند ہوں گے۔

sequelae کسی بیماری کے بعد میں ظاہر ہونے والے اثرات ہیں، aftereffects دماغی کی بیماری ہے، مگر دماغی دھند کووڈ 19 کے مریضوں میں ظاہر ہونے والا ایک ممکنہ طویل المعیاد عارضہ ہے، جس کا مشاہدہ اب تک ہوچکا ہے۔

ایسے ہی دیگر اثرات میں دل، پھیپھڑوں یا اعصابی نظام کو نقصان پہنچنے کے ساتھ عام خارش اور تھکاوٹ شامل ہیں۔

ان ممکنہ اثرات میں طویل عرصے تک سونگھنے یا چکھنے کی حس سے محرومی اور دیگر بھی شامل ہوسکتے ہیں۔

ابھی نوول کورونا وائرس پر تحقیق کو ایک سال بھی نہیں ہوا اور اس سے جڑے اسرار مسلسل سائنسدانوں کو چونکا رہے ہیں، مگر سب سے خوفزدہ کردینے والا پہلو یہ ہے کہ اپنے دیگر کزنز جیسے عام نزلہ زکام یا سیزنل فلو کے برعکس یہ بظاہر طویل وقت تک جسم پر اثرات مرتب کرنے والا ہے۔

یہ دیکھنا یا جاننا تو ابھی باقی ہے کہ کتنے عرصے تک اس کی علامات جسمانی نظام میں رہتی ہیں۔

مگر ایک جرمن طبی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ہر 3 میں سے 2 مریضوں کے دل میں ورم کووڈ 19 سے صحتیابی کے 71 دن بعد بھی موجود تھا۔

دیگر محققین نے دریافت کیا کہ اس بیماری سے صحتیاب ہونے والے متعدد افراد میں 3 ماہ بعد بھی پھیپھڑوں کے نقصان کو دریافت کیا گیا اور ابھی وبا کو ایک سال بھی پورا نہیں ہوا۔

ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ ان افراد پر اس کے اثرات 5 سال یا 20 سال بعد کیا ہوسکتے ہیں، کیا وہ بیمار ہونے سے پہلے کی طرح سانس لے سکیں گے، دوڑ، سوچ اور کھانے کا ذائقہ محسوس کرسکیں گے؟

اس کے لیے تو ابھی تحقیقی رپورٹس کا انتظار کرنا ہوگا مگر 2020 میں غیریقینی ہمارے لیے کیا معنی رکھتی ہے؟

لانگ کووڈ یا اس کے طویل المعیاد اثرات ماہرین کے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں، جن میں سے ایک دماغی دھند بھی ہے، جس میں مختلف دماغی افعال کے مسائل بشمول یادداشت کی محرومی، ذہنی الجھن، توجہ مرکوز کرنے میں مشکل، سر کرانے اور روزمرہ کے کام کرنے میں مشکلات شامل ہیں۔

کورونا وائرس سے نجات حاصل کرنے والے افراد کے مطابق دماغی دھند سے ان کی کام اور معمول کے افعال کی اہلیت متاثر ہوئی ہے۔

امریکا کے نارتھ ویسٹرن میڈیسین میں دماغی امراض کے شعبے کے سربراہ ڈاکٹر ایگور کورولنک کے مطابق 'ہزاروں افراد کو ان مسائل کا سامنا ہے اور کووڈ 19 سے صحتیاب ایسے سیکڑوں افراد کا معائنہ کرچکے ہیں، ورک فورس پر اس کے اچرات بہت نمایاں ہوں گے'۔

ماہرین اس حوالے سے پریقین نہیں کہ کس وجہ سے لوگوں کو دماغی دھند کا سامنا ہورہا ہے ، جس کی مختلف علامات لوگوں میں نظر آرہی ہیں اور ایسے افراد بھی اس سے متاثر ہورہے ہیں جن میں کووڈ 19 کی شدت معتدل تھی اور پہلے سے کسی بیماری کے شکار نہیں تھے۔

اس حوالے سے خیال کیا جارہا ہے کہ وائرس کے خلاف جسم کا مدافعتی ردعمل بدستور متحرک رہتا ہے یا خون کی شریانوں میں ورم دماغ تک پہنچ جاتی ہے۔

کووڈ 19 کے دوران نظام تنفس کے مسائل کے باعث ہسپتال میں داخل ہونے والے مریضوں کو ذہنی الجھن اور دیگر دماغی افعال متاثر ہونے کے کیسز سامنے آئے ہیں۔

ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ایسے مریضوں کو زیادہ وقت تک ہسپتال میں رہنے کی ضرورت پڑتی ہے، جبکہ اموات کی شرح زیادہ اور ہسسپتال سے فارغ ہونے کے بعد اکثر روزمرہ کی سرگرمیوں کو بحال نہیں کرپاتے۔

مگر ایسے افراد میں دماغی دھند کے طویل المعیاد اثرات کے حوالے سے تحقیقی کام اب شروع ہوا ہے۔

اگست میں فرانس میں ہونے والی ایک تحقیق کے نتائج سامنے آئے تھے، جس میں ہسپتال میں زیرعلاج رہنے والے کووڈ 19 کے 120 افراد کو شامل کیا گیا تھا۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ہسپتال سے فارغ ہونے کے بعد 34 فیصد کو یادداشت کی محرومی اور 27 فیصد کو توجہ مرکوز کرنے میں مشکلات کا سامنا ہوا۔

ایک حالیہ سروے (جس کے نتائج جلد شائع ہوں گے) میں لگ بھگ 4 ہزار کووڈ 19 کے صحتیاب مریضوں کو شامل کیا گیا تھا۔

اس تحقیق میں شامل انڈیانا یونیورسٹی اسکول آف میڈیسین کی ایسوسی ایٹ ریسرچ پروفیسر نٹالی لمبرٹ نے بتایا کہ 50 فیصد سے زیادہ افراد نے صحتیابی کے بعد توجہ مرکوز کرنے میں مشکلات کا سامنا ہوا۔

یہ 101 طویل المعیاد اور مختصر المدت علامات کی فہرست میں چوتھی سب سے عام علامت ہے، یادداشت کے مسائل، سرچکرانے یا الجھن کی شکاہت ایک تہائی سے زیادہ افراد نے کی۔

دماغی دھند کا جولائی کے بعد سے سامنا کرنے والے 60 سالہ رک سولیون کے مطابق 'یہ کمزور کردینے والا ہے، میں لگ بھگ وہمی بن کا ہوں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے میں سکون آور ادویات کے زیراثر ہوں'۔

پراسرار وجہ

دماغی دھند کی وجہ اب تک اسرار بنی ہوئی ہے، جس کی ایک جزوی وجہ یہ بھی ہے کہ اس کی علامات بہت مختلف ہیں۔

امریکا کے نیشنل انسٹیٹوٹ آف نیورولوجیکل ڈس آرڈر اینڈ اسٹروک میں اعصابی نظام کے امراض کے شعبے کے سربراہ ڈاکٹر اوریندرا ناتھ کے مطابق 'اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ لوگوں کا مدافعتی نظام ابتدائی بیماری ختم ہونے کے بعد بھی متحرک ہے'۔

یالے اسکول آف میڈیسین میں اعصابی امراض کی ماہر ڈاکٹر سرینہ سپوڈچ نے بتایا کہ خون کی شریانوں میں ورم بھی اس کی وجہ ہوسکتی ہے، کیونکہ کسی بیماری کے دوران ایسے مدافعتی مالیکیولز کا اخراج ہوتا ہے جو بیماری کے خلاف جسم کو دفاع تو فراہم کرتے ہیں، مگر کسی حد تک زہریلے اثرات کے حامل ہوتے ہیں خاص طور پر دماغ کے لیے۔

ایک اور طبی ماہر ڈاکٹر ڈونا کم مرفی کے مطابق معمولی فالج بھی چند علامات کا باعث ہوسکتا ہے، جس کا سامنا خود ان کو کووڈ 19 سے صحتیابی کے بعد ہوا۔

دیگر ممکنہ وجوہات میں آٹوامیون ردعمل بھی شامل ہوسکتا ہے، جب اینٹی باڈیز غلطی سے اعصابی خلیات پر حملہ آور ہوجاتی ہیں۔

ماؤنٹ سینائی ہیلتھ سسٹم میں دماغی امراض کے ماہر ڈاکٹر ایلیسن نیویز کا کہنا تھا کہ علامات جیسے ہاتھوں پیروں میں سنسناہٹ، سوئیاں چبھنا یا سن ہونا کا سامنا اس وقت ہوتا ہے جب اعصاب کو نقصان پہنچا ہو۔

دماغی دھند کا سامنا کرنے والے کچھ افرد کو بدستور پھیپھڑوں یا دل کے مسائل سے بھی مقابلہ ہوسکتا ہے، جس سے اعصابی علامات کی شدت میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اب تک ایم آر آئی اسکینز میں دماغی حصوں کو نقصان پہنچنے کا عندیہ نہیں ملا۔

ڈاکٹر ڈونا مرفی کے مطابق اس حوالے سے تحقیق بہت ضروری ہے تاکہ علامات کو سنجیدگی سے لیا جاسکے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں