اگر سیاست غیر فطری اور انوکھے ساتھی بنانے کا نام ہے اور جنگیں سیاست کا ہی ایک تسلسل ہیں تو اس بات میں بھی کوئی حیرانی نہیں ہے کہ جنگیں جغرافیائی سیاست کا شرمناک کھیل ہیں۔ یہ وعدہ اور دغابازی، درخواست و انکار اور اتحادوں کا ایک پیچیدہ جال ہیں۔

اب آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان نیگورنو کاراباخ کے معاملے پر جاری کشیدگی کو ہی دیکھ لیں۔ اگرچہ دنیا نیگورنو کاراباخ کے خطے کو آذربائیجان کا حصہ سمجھتی ہے لیکن 1994ء سے یہ ایک آزاد ریاست رہی ہے۔ اس علاقے کو آرمینیا کی حمایت تو حاصل ہے تاہم آرمینیا نے اسے آزاد ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔

1920ء میں آذری افواج نے اس علاقے پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن اس دوران بالشویک افواج نے آذربائیجان پر قبضہ کرلیا۔ اس اقدام سے آرمینیا نہ صرف خوش ہوا بلکہ اسے یہ بھی محسوس ہوا کہ روس جو ثقافتی اور مذہبی اعتبار سے آرمینیا سے قریب ہے وہ نیگورنو کاراباخ کا علاقہ آرمینیا کے حوالے کردے گا۔ لیکن روس کے عزائم اس سے مختلف تھے اور اسی سال بالشویک افواج نے آرمینیا پر بھی قبضہ کرلیا۔ نئی حکومت نے اس مسئلے کے حل کا عزم تو ظاہر کیا لیکن یہ معاملہ اگلی کئی دہائیوں کے لیے سرد خانے کی نظر ہوگیا۔

اس وقت اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اسٹالن ترکی کو ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا جو تب بھی آذربائیجان کا اہم اتحادی تھا اور آج بھی ہے۔ اس کے علاوہ اس وقت روس کی جانب سے ترکی کو مستقبل کے ایک اتحادی کے طور پر بھی دیکھا جارہا تھا۔

مزید پڑھیے: آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان جنگ چھڑی تو فائدہ کون اٹھائے گا؟

اس سے بھی اہم وجہ یہ تھی کہ آذربائیجان اور آرمینیا دونوں ہی یو ایس ایس آر کا حصہ تھے اور ان دونوں ممالک کے درمیان چپقلش کو جاری رکھنا اسٹالن اور ان کے پیشرو افراد کے لیے فائدہ مند تھا، کیونکہ اس طرح روس کو ایک بالادست ثالث کی حیثیت حاصل ہوجاتی۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے ساتھ ہی کاراباخ کے معاملے پر کشیدگی دوبارہ شروع ہوگئی اور 1994ء میں آذری افواج کو نیگورنو کاراباخ کے علاقے سے پیچھے ہٹنا پڑا۔ اس وقت پیدا ہونے والا تعطل حالیہ کشیدگی تک برقرار رہا۔

آج ترکی آذربائیجان کا سب سے بڑا اتحادی ہے۔ اس نے نہ صرف آذربائیجان کی سفارتی مدد کی ہے بلکہ آذربائیجان کو فوجی امداد بھی بھیجی ہے۔ تاہم خطے کے دیگر اتحاد مکڑی کےجالے کی طرح پیچیدہ اور الجھے ہوئے ہیں۔

جیسے ایران کی مثال لے لیجیے۔ ہماری عقل یہی کہے گی کہ ایران ایک عیسائی ملک آرمینیا کے مقابلے میں شیعہ اکثریتی ملک آذربائیجان کی حمایت کرے گا، لیکن حقیقت میں معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔

ایران اپنی شمالی سرحدوں پر ترکی کی موجودگی سے خوش نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اسے ملک میں بڑھتی ہوئی آذری اور ترک قوم پرستی سے بھی نمٹنا ہے۔ ایران میں تقریباً ایک کروڑ 20 لاکھ آذری رہتے ہیں۔ اگرچہ یہ لوگ معاشرے میں گھل مل کر رہتے ہیں تاہم گزشتہ کچھ عرصے کے دوران ایران میں موجود آذری لوگوں میں بے چینی اور انتشار کے اشارے ملے ہیں۔ ان لوگوں کی شکایت یہ ہے کہ ایرانی حکومت کی جانب سے ان کی زبان اور شناخت کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔ اس قوم پرستی میں آذربائیجان سے بڑھتے ہوئے تعلق اور ترکی اور دیگر ممالک کی جانب سے ہونے والے سیٹلائیٹ براڈ کاسٹ سے اضافہ ہوا ہے۔

یہ قوم پرستی ترک صدر اردوان کے ماتحت بننے والی پالیسیوں سے بھی مطابقت رکھتی ہے۔ اردوان اس وقت ترک قوم پرستی کا کارڈ بہت خوبی سے کھیل رہے ہیں اور ان کے لیے یہ جنگ اس پالیسی کو آگے بڑھانے اور مشرقِ وسطیٰ اور بحیرہ روم میں ترکی کے گرد تنگ ہوتے ہوئے گھیرے اور ملک کی بگڑتی ہوئی معاشی صورت حال سے عوام کی توجہ ہٹانے کا ایک ذریعہ ہے۔

ترکی کو خطے سے دُور رکھنے کے ساتھ ساتھ ایران خطے میں روس کی مداخلت سے بھی ہوشیار ہے کیونکہ روس کے نزدیک یہ خطہ تاریخی طور پر اس کے حلقہ اختیار میں آتا ہے۔ اب تک روس نے دونوں جانب سے کھیلا ہے اور دونوں ممالک کو ہتھیار فروخت کر رہا ہے۔ روس اس بات کا انتظار کررہا ہے کہ اس کشیدگی میں کون غالب رہتا ہے اور اس وقت تو آذربائیجان ہی غالب نظر آرہا ہے۔

لیکن ظاہر ہے کہ آذربائیجان کی مکمل فتح بھی کسی صورت روس کے مفاد میں نہیں ہے۔ کیونکہ آذربائیجان اور روس دونوں ہی گیس برآمد کرنے والے ممالک ہیں اور روس کے لیے یہ گیس نہ صرف زرِمبادلہ حاصل کرنے کا ذریعہ ہے بلکہ خطے میں اس کے اثر و رسوخ کی بھی ضامن ہے۔ اس وجہ سے روس اور اس کا نیا اتحادی ایران دونوں ہی موجودہ صورتحال کو برقرار رکھنا چاہیں گے، اسی لیے یہ دونوں ممالک جنگ بندی پر زور دے رہے ہیں۔

ایران یہ ثابت کرنے کے لیے بہت زیادہ محنت کررہا ہے کہ وہ غیر جانبدار ہے اور وہ آرمینیا کی حمایت نہیں کررہا۔ لیکن تاریخی طور پر ایران کی جانب سے آرمینیا کی حمایت اور آذربائیجان کی مخالفت کی ایک بڑی وجہ اسرائیل ہے۔

جب آج سے کوئی 15 سال پہلے ترکی اور اسرائیل کے درمیان اسٹریٹجک تعلقات قائم ہوئے، تو اسرائیل نے بڑی محنت اور بہت احتیاط کے ساتھ آذربائیجان سے بھی اپنے تعلقات قائم کیے۔ ان تعلقات کا مقصد ایران کی سرحد پر جاسوسی کا نظام قائم کرنا تھا۔ اس کام کے لیے موساد نے آذربائیجان میں اپنا ایک اسٹیشن بھی قائم کیا ہے۔

ایک امریکی سفارتکار کے مطابق ان تعلقات کی اصل گہرائی کو منظرِ عام پر نہیں لایا گیا تھا۔ حقیقت جو بھی ہو ہم یہ تو جانتے ہیں کہ اسرائیل آذربائیجان کو بڑی تعداد میں اسلحہ فروخت کرتا ہے اور آذربائیجان اسرائیل کو تیل فراہم کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ خلیجی ممالک کے ساتھ اسرائیل کے بڑھتے ہوئے تعلقات کی وجہ سے اسرائیل اور آذربائیجان کے درمیان تعلقات میں موجود گرم جوشی نسبتاً کم ہوجائے گی، اور اگر خلیجی ممالک کی بات کی جائے تو متحدہ عرب امارات ترکی کو نقصان پہنچانے کے لیے آرمینیا کے ساتھ معاشی اور عسکری تعاون بڑھا رہا ہے۔ یہ واقعی ایک انوکھا اتحاد ہے۔


یہ مضمون 12 اکتوبر 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں