مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومت کے خاتمے کے لیے آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) نے جنوری کی حتمی تاریخ دی ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ حکومت کا بہت پہلے کام ختم ہوجائے گا۔

نجی چینل 'آج ٹی وی' کے پروگرام 'فیصلہ ہے آپ کا' میں بات کرتے ہوئے مریم نواز نے کہا کہ اگر استعفے دینا پڑے تو استعفے دیں گے۔

مزید پڑھیں: موجودہ حکومت سے مذاکرات کی گوئی گنجائش نہیں، مریم نواز

انہوں نے کہا کہ 'یہ حکومت اور کتنی دیر چلتی ہے، مجھے یہ بھی یقین ہے کہ یہ آئینی حکومت اور نہ ہی منتخب حکومت ہے اور جتنا بھی سپورٹ کیا جائے گا رائیگاں ہوگا۔

مریم نواز نے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ ادارے اپنے آپ کو سیاست میں شامل نہ کریں، ادارے بہت مقدس ہیں اور انہیں مقدس رہنا چاہیے۔

ایک سوال کے جواب میں مریم نواز نے کہا کہ میڈیا پر طویل عرصے تک میرے نام پر پابندی کے بعد پہلی مرتبہ اس وقت نام منظر عام پر آیا جب میں اپنے والد اور پارٹی کے قائد نواز شریف سے ملنے کے لیے کوٹ لکھپت جیل گئی اور قومی احتساب بیورو (نیب) نے مجھے والد کے سامنے گرفتار کیا۔

مریم نواز نے کہا کہ 'یہ وہ موقع تھا جب میڈیا مجبور ہوا کہ وہ مسلم لیگ (ن) کی خاتون رہنما سے مریم نواز کہے'۔

طویل عرصے تک خاموش رہنے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ والدہ کے انتقال اور والد کی طبیعت خراب ہونے اور پھر ان کے بیرون ملک علاج کے لیے روانگی تک میں خوف میں مبتلا تھی کہ میرے کچھ کہنے سے کہیں والد پر کوئی سختی نہ آجائے۔

یہ بھی پڑھیں: موجودہ حکومت 6 ماہ میں چلی جائے گی، بلاول کا دعویٰ

انہوں نے اپنی بات جاری کرتے ہوئے کہا کہ 'جب میرے والد کی حالت زیادہ خراب ہوئی تو حکومت کے ہاتھ پاؤں پھول گئے اور تب میں بھی خود کچھ دیر کے لیے خاموش رہی کیونکہ میری وجہ سے سابق وزیراعظم کی زندگی آزمائش میں آجاتی'۔

مریم نواز نے کہا کہ 'ہمارا مقابلہ انتہائی کم ظرف لوگوں سے ہے جنہیں رشتوں کی پاسداری کا لحاظ نہیں ہے اور وہ صرف انتقام کی آگ میں جل رہے ہیں'۔

پارٹی کی نائب صدر نے کہا کہ نواز شریف کو علاج کے لیے بیرون ملک بھیجنا حکومت کی مجبوری بن گئی تھی تاہم اس میں کسی ڈیل کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو نواز شریف سے ہمدردی نہیں تھی بلکہ وہ جانتے تھے کہ اگر سابق وزیراعظم کو کچھ ہوا تو وہ حالات نہیں سنبھال سکیں گے۔

مریم نواز نے کہا کہ 'دراصل حکومت ممکنہ نتائج سے خوفزدہ ہوگئی تھی'۔ یہ بھی پڑھیں: آرمی چیف سے ملاقات نواز شریف یا مریم نواز کی درخواست پر نہیں کی، محمد زبیر

روانگی سے قبل نواز شریف کے پلیٹ لیٹس سے متعلق سوال کے جواب میں رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ نیب کو جب نواز شریف کی طبی رپورٹ ملی تو انہیں تشویش ہوئی اور وہ زبردستی انہیں سروسز ہسپتال لے گئے، جہاں سرکاری ڈاکٹروں کی ٹیم نے ان کے ٹیسٹ لیے تو نتائج تشویشناک تھے لیکن وزیراعظم عمران خان کو یقین نہیں آیا اور انہوں نے اپنا ڈاکٹر بھیجا اور ساتھ ہی صوبائی وزیر صحت یاسمین راشد بھی ہسپتال میں رک گئیں کیونکہ انہیں اندازہ تھا میرے والد کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ڈاکٹرز جھوٹ نہیں بولتے، جو نواز شریف کو تکلیف تھی اور جو ان کے طبی نتائج تھے ڈاکٹرز نے وہ صورتحال پیش کردی'۔

انہوں نے کہا ملک میں نواز شریف کا علاج ممکن نہیں تھا اور لندن میں وہ روز صبح و شام ہسپتال گئے جبکہ ہم بھی ان کے ہمراہ ہوتے تھے، اس میں ہسپتال میں داخلے کی ضرورت نہیں تھی۔

یہ بھی پڑھیں: آل پارٹیز کانفرنس: جدوجہد عمران خان کے نہیں انہیں لانے والوں کیخلاف ہے، نواز شریف

مریم نواز نے کہا کہ نواز شریف اپنے علاج کے بعد واپس آئیں گے۔

ایک سوال کے جواب میں نائب صدر مسلم لیگ (ن) نے بتایا کہ ان کی کسی سے بھی کوئی خفیہ ملاقاتیں نہیں ہوئیں۔

انہوں نے بتایا کہ 'یہ ایک اچھا فیصلہ ہے کہ پارٹی کا کوئی بھی رکن خفیہ ملاقاتیں نہ کرے اور اگر ملاقات ضروری ہے تو پارٹی کی قیادت کے علم میں ہو'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'خفیہ ملاقات پر پابندی ایک اصول کے تحت لگائی گئی ہے کیونکہ آپ پہلے سیاستدانوں کے ساتھ رابطے کرتے ہیں اور جب اصول کی بات ہو تو آپ ایک ذاتی ملاقات کا حوالہ دیتے ہیں اور معاملہ طول پکڑ جاتا ہے'۔

سابق گورنر سندھ محمد زبیر کی چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقاتوں سے متعلق سوال کے جواب میں مریم نواز نے کہا کہ اس پر تبصرہ کرنے سے گریز کروں گی کیونکہ گورنر سندھ نے اس پر خود ہی وضاحت کردی تھی۔

مریم نواز نے کہا کہ 'حتمی طور پر بات چیت عوام کے ساتھ ہوگی جو ہم کرنے جارہے ہیں'۔

عوام کے علاوہ دیگر اسٹیک ہولڈرز سے متعلق سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ 'وہ اسٹیک ہولڈرز پاکستان کے نظام میں ہیں لیکن بات چیت میں انہیں اسٹیک ہولڈرز نہیں ہونا چاہیے'۔

مزید پڑھیں: قوم کے حالات کی وجہ نااہل حکمرانوں کو مسلط کرنے والے ہیں، قائد مسلم لیگ (ن)

انہوں نے کہا کہ 'ایسی بات چیت جب آپ کرتے ہیں تو اس کا انجام اچھا نہیں ہوتا، پاکستان کے عوام کا حق ہے کہ ان کو معلوم ہو کہ کیا ہورہا ہے اور کیا ہوتا ہے'۔

مسلم لیگ (ن) کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ سے متعلق سوال کے جواب میں مریم نواز نے کہا کہ 'یہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ نہیں ہے، لوگ جان بوجھ کر اسے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ قرار دیتے ہیں جبکہ نواز شریف نے ہمیشہ کرداروں کے حوالے سے بات کی نہ کہ اداروں کے'۔

ان کا کہنا تھا کہ ہر ادارے کو آئین کے دائرہ کار کے مطابق کام کرنا چاہیے، یہ تو بہت اچھا بیانیہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'نواز شریف نے تنقید برائے تنقید نہیں کہ بلکہ اپنے بیانیے میں اداروں کے نام لیے'۔

پاکستان میں کبھی انتخابات شفاف نہ ہونے اور صرف گزشتہ انتخابات پر مسلم لیگ کو اعتراض ہونے کے حوالے سے سوال کے جواب میں مریم نواز نے کہا کہ 'اس طرح تو کبھی نہیں ہوا'۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 'نواز شریف اور شہباز شریف کے مابین کوئی تنازع نہیں ہے، شبہاز شریف اپنا مؤقف پیش کرتے ہیں لیکن جب بڑے بھائی کا فیصلہ آجائے تو پھر وہ دل سے تسلیم کرتے ہیں اور حکم مان کر چلتے ہیں'۔

مریم نواز نے کہا کہ 'جب انہوں نے دیکھا کہ شہباز شریف ان کی ہدایت کے مطابق نواز شریف کی مخالفت نہیں کر رہے تو انہوں نے اپوزیشن لیڈر کو جیل میں ڈال دیا'۔

تبصرے (0) بند ہیں