مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے مسئلہ کشمیر کو پس پشت رکھا، شہریار آفریدی

اپ ڈیٹ 20 اکتوبر 2020
شہریار آفریدی نے پریس کانفرنس کی—فوٹو: پی آئی ڈی
شہریار آفریدی نے پریس کانفرنس کی—فوٹو: پی آئی ڈی

اسلام آباد: مسئلہ کشمیر پر قائم پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین شہریار خان آفریدی نے کہا ہے کہ اپوزیشن کی پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی آئی) میں شامل اہم جماعتوں کے رہنماؤں نے اپنے دورِ حکومت میں کشمیر کے مسئلے کو پس پشت ڈالے رکھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے کہا کہ ان رہنماؤں نے کشمیر کمیٹی کی چیئرمین شپ کو موجودہ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے لیے ’بارگیننگ چپ’ کے طور پر استعمال کیا۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ 'مولانا فضل الرحمٰن کی بدترین کارکردگی کے باوجود کشمیر کمیٹی کو صرف سیاسی فائدے حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا گیا جبکہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے اسے (مسئلہ) کشمیر کو سرد خانے میں رکھا۔

یہ بھی پڑھیں: کشمیر کمیٹی بے اختیار ہے، مولانا فضل الرحمٰن

شہریار آفریدی نے سابق حکومتوں کی 10سالہ کارکردگی پر بات کرتے ہوئے الزام لگایا کہ مولانا فضل الرحمٰن نے چیئرمین کشمیر کمیٹی کی حیثیت سے اپنے ذاتی مفادات کے لیے کشمیر کاز پر سمجھوتہ کیا۔

چیئرمین کشمیر کمیٹی نے آل پارٹیز حریت کانفرنس کے رہنما ڈاکٹر ولایت حسین، نبیلہ ارشاد اور ڈاکٹر مجاہد گیلانی کے ہمراہ کانفرنس میں کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن نے 10 سال چیئرمین کشمیر کمیٹی رہنے کے دوران اس کے لیے مختص رقم 47 کروڑ 40 لاکھ روپے میں سے 46 کروڑ 30 لاکھ روپے خرچ کیے لیکن اصل میں کشمیر کاز کے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ 10 سال کے دوران مولانا فضل الرحمٰن کی سربراہی میں رہنے والی کشمیر کمیٹی کی جانب سے 24 اجلاس منعقد کیے گئے اور 62 پریس ریلیز جاری کی گئیں جبکہ ایک پریس ریلیز قومی خزانے کو 76 لاکھ روپے کی پڑی اور 2 ماہ میں ایک پریس ریلیز جاری کی گئی۔

مزید پڑھیں: اپوزیشن کے واک آؤٹ کے باوجود شہریار آفریدی چیئرمین کشمیر کمیٹی منتخب

شہریار آفریدی کا مزید کہنا تھا کہ مولانا نے 10 برسوں میں مسئلہ کشمیر پر لابی کیلئے غیرملکی وفود سے ایک مرتبہ بھی ملاقات نہیں کی اور جب برہان وانی کی شہادت کے بعد مسئلہ کشمیر پر آواز اٹھانے کے لیے انہیں 2016 میں بظاہر یورپ جانا تھا تب اعجاز الحق نے 22 رکنی پارلیمانی وفد کی سربراہی کی کیونکہ مولانا اس وفد کا حصہ نہیں بنے تھے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 2017 میں برہان وانی کی پہلی برسی کے موقع پر پاکستان میں اقوام متحدہ کے نمائندے کو مفاہمت کی یاد داشت پیش کرنے کے لیے مولانا فضل الرحمٰن موجود نہیں تھے اور ایک مرتبہ پھر اعجاز الحق کو وفد کا ساتھ دینا پڑا۔

چیئرمین کشمیر کمیٹی کا مزید کہنا تھا کہ مقبوضہ جموں اینڈ کشمیر میں بھارتی فورسز کے ظلم پر بولنے میں مولانا کی جانب سے مسلسل ہچکچاہٹ کے باعث اعجاز الحق کی سربراہی میں ایک ذیلی کمیٹی بنائی گئی تاکہ کشمیر سفارتکاری کو دیکھا جاسکے۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن چیئرمین کشمیر کمیٹی کے طور پر مراعات سے مستفید ہوتے رہے۔


یہ خبر20 اکتوبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں