ٹرمپ-جو بائیڈن مباحثہ میں ’میوٹ‘ کا بٹن بھی شامل کیا جائے گا

اپ ڈیٹ 20 اکتوبر 2020
امریکی صدر ایریزونا کے علاقے ٹکسن میں ریلی سے خطاب کر رہے ہیں — فوٹو:اے پی
امریکی صدر ایریزونا کے علاقے ٹکسن میں ریلی سے خطاب کر رہے ہیں — فوٹو:اے پی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ڈیموکریٹک حریف جو بائیڈن کے درمیان حتمی بحث میں ’میوٹ‘ کا بٹن بھی شامل کیا جائے گا تاکہ ہر امیدوار کو بلا روک ٹوک بولنے کی اجازت مل سکے جبکہ ٹرمپ کی مہم نے اس تبدیلی پر اعتراضات اٹھادیا۔

واضح رہے کہ اس سے قبل گزشتہ ماہ ہونے والے دونوں صدارتی امیداواروں کے درمیان مباحثے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے متفقہ قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کئی مرتبہ جو بائیڈن کو گفتگو کرنے سے روکا تھا۔

ریپبلکنز کا کہنا تھا کہ وہ جمعرات کی رات کو ہونے والے مباحثے شرکت کریں گے جو 3 نومبر کو ووٹنگ سے قبل بڑے پیمانے پر لوگوں تک اپنی بات پہنچانے کا آخری موقع ہے۔

مباحثوں پر صدارتی کمیشن نے کہا کہ ٹینیسی کے نیش وِل میں ہونے والے مباحثے میں ہر امیدوار کا مائکروفون بحث کے ہر 15 منٹ کے سیگمنٹ کے آغاز میں دوسرے کو دو منٹ کی آغازی کلمات ادا کرنے کی اجازت دینے کے لیے میوٹ کیا جائے گا اور اس کے بعد دونوں مائکروفونز آن کر دیئے جائیں گے۔

مزید پڑھیں: صدارتی امیدوار جو بائیڈن جیت سکتے ہیں، ٹرمپ کے اتحادی کا دعویٰ

ڈونلڈ ٹرمپ کی مہم کے منیجر بل اسٹیفین نے کہا کہ ’صدر ٹرمپ اپنے من پسند امیدوار کو فائدہ پہنچانے کی تازہ ترین کوشش میں کمیشن کی جانب سے آخری منٹ میں تبدیلیوں سے قطع نظر جو بائیڈن سے بحث کرنے کے لیے پرعزم ہیں‘۔

جو بائیڈن مہم نے فوری طور پر رائے دینے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

اب تک 3 کروڑ سے زائد امریکی پہلے ہی ووٹ ڈال چکے ہیں جس سے ڈونلڈ ٹرمپ کا رائے تبدیل کرنے کا مقصد مشکل میں ہے کیونکہ قومی اور ریاستی رائے شماری میں ٹرمپ کو مسترد کرنے کے امکانات بتائے گئے تھے۔

29 ستمبر کو ہونے والی بحث کے دوران ٹرمپ نے بار بار جو بائیڈن کی گفتگو میں مداخلت کی تھی اور ایک موقع پر جو بائیڈن نے اکسائے جانے پر کہا تھا کہ ’کیا تم چپ رہوگے؟‘۔

اس سے قبل پیر کے روز ٹرمپ کی مہم نے کہا تھا کہ وہ جمعرات کی بحث کے موضوعات کے اعلان کردہ سیٹ سے ناخوش ہیں اور کہا تھا کہ اس میں خارجہ پالیسی پر زیادہ توجہ دینی چاہیے تھی۔

انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ غیر متعصبانہ گروپ جو بائیڈن کی طرف جھکا ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جو بائیڈن نے ٹرمپ کے ساتھ انتخابی مباحثے سے انکار کردیا

ٹرمپ نے ایری زونا میں جلسوں سے واشنگٹن واپسی کے دوران ایئر فورس ون میں سوار رپورٹرز کو بتایا کہ ’میں شرکت کروں گا لیکن یہ انتہائی غیر منصفانہ ہے کہ انہوں نے موضوع کو تبدیل کردیا اور یہ بہت ہی غیر منصفانہ ہے کہ ہمارے پاس ایک ایسا اینکر ہے جو ایک جانب جھکا ہوا ہے‘۔

واضح رہے کہ وائٹ ہاؤس کے ایک معزز صحافی این بی سی نیوز کے کرسٹن والکر کو اس بحث میں اینکر کے خدمات انجام دینے ہیں۔

ٹرمپ کی ڈاکٹر فوکی پر تنقید

مغربی حصے میں مہم کے تیسرے روز ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنی مہم تبدیل کرنے کے لیے دباؤ کا سامنا رہا جہاں انہیں گزشتہ انتخابات کی طرح آخری لمحات میں فتح کی امید ہے تاہم کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں تیزی اور ان کے ڈاکٹر اینتھونی فوکی جیسے ماہرین پر تنقید ان کے اس آخری کوششوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔

مزید پڑھیں: ٹرمپ کورونا کا شکار ہوئے تو پوری دنیا نے خوشی کا اظہار کیوں کیا؟

ٹرمپ نے 3 روز میں اپنی 5ویں ریلی کے لیے ایریزونا کے علاقے ٹکسن جانے کے لیے طیارے میں سوار ہونے سے قبل رپورٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’میں خوفزدہ نہیں ہوں، مجھے لگتا ہے کہ میں خوش ہوں اور بہت مطمئن ہوں کیونکہ میں نے بہت اچھا کام کیا ہے‘۔

لاس ویگاس سے صبح کو ہونے والی کانفرنس میں انہوں نے اپنے اسٹاف کا مورال بلند کرتے ہوئے ان سے کہا کہ ’ہم جیتیں گے، کیا میں تم سے ایسا 2 سے 3 ہفتے قبل ایسا نہیں کہا تھا، میں اب 2016 کے مقابلے میں اب زیادہ بہتر محسوس کر رہا ہے اور ہم پہلے سے زیادہ بہتر انداز میں ہیں‘۔

ٹرمپ نے حکومت کے سب سے بڑے ماہر وبائی امراض کے بارے میں کہا کہ ’لوگ فوکی اور ان سب بیوقوفوں کو سن کر تھک گئے ہیں، جب بھی وہ ٹیلی ویژن پر آتا ہے ہمیشہ ایک بم پھٹتا ہے لیکن اگر آپ اسے فائر کرتے ہیں تو وہ ایک اور بڑا بم ثابت ہوتا ہے، فوکی ایک تباہی ہے‘۔

واضح رہے کہ ڈاکٹر اینتھونی فوکی امریکا کے معزز اور مقبول ڈاکٹر ہیں اور وبائی امراض کے بارے میں سائنسی مشوروں کو ٹرمپ کی جانب سے مسترد کیے جانے پر انہیں ہی مذمت کا سامنا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں