امریکا نے مزید 6 چینی میڈیا اداروں پر پابندیاں عائد کردیں

اپ ڈیٹ 22 اکتوبر 2020
امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو—فائل فوٹو: اے پی
امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو—فائل فوٹو: اے پی

واشنگٹن: امریکا نے مزید 6 چینی میڈیا آرگنائزیشنز پر قوانین کو سخت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ پروپیگینڈا آؤٹ لیٹس ہیں جو ریاست کو جوابدہ ہیں۔

ڈان اخبار میں شائع فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ یہ ’غیر ملکی مشنز‘ کے طور پر چینی آؤٹ لیٹس پر امریکی پابندیوں کا تیسرا دور تھا، جس میں ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے امریکا میں مقیم اسٹاف کی تفصیلات اور ریئل ای اسٹیٹ ٹرانزیکشنز سے متعلق اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کو رپورٹ دیں۔

اس حوالے سے امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو کا ایک نیوز کانفرنس میں کہنا تھا کہ ان اداروں کو اپنی رپورٹنگ کے دوران کسی پابندی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

مزید پڑھیں: امریکا کا چینی قونصل خانہ بند کرنے کا حکم، دونوں ممالک میں کشیدگی بڑھ گئی

ادھر اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ترجمان مورگن ارتاگس نے پیپلز ریپبلک آف چائنا اور چائنیز کمیونسٹ پارٹی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگرچہ دنیا بھر میں میڈیا سچائی کے لیے کام کرتا ہے جبکہ پی آر سی میڈیا سی سی پی کے لیے امور انجام دیتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ امریکا عوامی سطح پر ان پابندیوں کے ذریعے حقیقت کو تسلیم کر رہا ہے۔

واضح رہے کہ غیرملکی مشنز کے طور پر شامل کی گئی ان 6 نئی تنظیموں میں یی کائی گلوبل، جی فینگ ڈیلی، شن من ایوننگ نیوز، سوشل سائنسز ان چائنا پریس، بیجنگ ریویو اور اکنامک ڈیلی شامل ہیں۔

اس سے قبل اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے 9 معروف اداروں پر قوانین کا اطلاق کیا تھا جس میں ژنوا نیوز ایجنسی اور چائنا گلوبل ٹیلی ویژن نیٹ ورک شامل تھے۔

یہ بھی پڑھیں: چین کا جوابی اقدام، امریکا کو چینگڈو میں قونصل خانہ بند کرنے کا حکم

ادھر چین نے ان ریگولیشنز کی مذمت کی اور نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ اور وال اسٹریٹ جرنل سمیت بڑی نیوز آرگنائزیشن کے لیے کام کرنے والے امریکی شہریوں کو بےدخل کرکے ردعمل دیا۔

دوسری جانب کچھ میڈیا رائٹس ایڈووکیٹس کی جانب سے چینی اداروں کو اسٹیٹ کے لیے امور انجام دینے کو تسلیم کرتے ہوئے امریکی اقدامات پر بے چینی کا اظہار کیا اور کہا گیا کہ یہ بیجنگ کو ان صحافیوں کو باہر نکالنے کا موقع دیتا ہے جنہوں نے انسانی حقوق اور کووڈ 19 کے دوران قابل قدر تفتیشی کام کیا۔


یہ خبر 22 اکتوبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں