سپریم کورٹ نے جسٹس عیسیٰ کیس میں 'منی لانڈرنگ' کی دفعات پر وضاحت کردی

اپ ڈیٹ 24 اکتوبر 2020
کیس پر سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں منی لانڈرنگ پر قانون کی روشنی بھی ڈالی گئی۔ —
کیس پر سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں منی لانڈرنگ پر قانون کی روشنی بھی ڈالی گئی۔ —

کراچی: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس پر سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں منی لانڈرنگ پر قانون کی روشنی بھی ڈالی گئی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق فیصلے کے پیراگراف 107، 108 اور 109 اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ آیا درخواست گزار نے اپنی ویلتھ اسٹیٹمنٹس (دولت) پر اثاثوں کا انکشاف نہ کرکے منی لانڈرنگ کا ارتکاب کیا ہے یا نہیں۔

عدالت عظمیٰ نے بتایا ہے کہ نافذ قانون اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 (اے ایم ایل اے) کے تحت ’منی لانڈرنگ کے جرم کے لیے ایک ضروری عنصر بنیادی جرم (پریڈییکٹ اوفینس) کا ارتکاب ہے، یہ بنیادی جرائم قانون سے منسلک شیڈول میں درج ہیں‘۔

ججز کا کہنا ہے کہ ’اس جرم پر عمل در آمد سے ہی جرم کے خلاف کارروائیاں سامنے آتی ہیں جس کی وجہ سے منی لانڈرنگ کے جرم خلاف ضابطے حرکت میں آتے ہیں‘۔

مزید پڑھیں: جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس میں ’نقائص‘ تھے، سپریم کورٹ

اس میں کہا گیا کہ ’بنیادی جرم کے ارتکاب کے بغیر منی لانڈرنگ کا کوئی جرم نہیں ہوسکتا ہے‘۔

عدالت کا کہنا ہے کہ تمام قانونی خلاف ورزیوں کا استعمال منی لانڈرنگ کے الزام میں نہیں کیا جاسکتا، ایکٹ کے شیڈول میں درج وہ جرائم ہی کرسکتے ہیں۔

عدالت کا کہنا ہے کہ ’شیڈول سے یہ پتا چلتا ہے کہ آرڈیننس کے تحت ٹیکس دہندگان کی جانب سے اثاثے ظاہر نہ کرنا اے ایم ایل اے کے تحت بنیادی جرم نہیں ہے‘۔

اس بنیاد پر عدالت نے کہا کہ اس معاملے میں درخواست گزار کے خلاف منی لانڈرنگ کا کوئی مقدمہ نہیں چل سکتا کیونکہ ’درخواست گزار کے خلاف کسی قسم کا بنیادی جرم کا الزام نہیں عائد کیا گیا ہے‘۔

عدالت کا کہنا ہے کہ ’مذکورہ بالا حقائق میں درخواست گزار کے خلاف منی لانڈرنگ کا الزام مکمل طور پر غیر حقیقی ہے‘۔

مزید برآں عدالت یہ بھی کہتی ہے کہ بنیادی جرائم کی نشاندہی کرنے والا شیڈول 2016 میں جاری کیا گیا تھا کہ اور ’یہ حقیقت ہے کہ 2016 سے قبل آرڈیننس کی خلاف ورزی منی لانڈرنگ کے الزام کی بنیاد نہیں بناسکتی تھی‘۔

تحقیقات کا کیس کے علاوہ بھی نتائج ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دے دیا

اے ایم ایل اے کا عدالتوں میں دفاع کرنے والے ایف آئی اے کے سابق خصوصی استغاثہ زاہد جمیل یہ خوش آئند پیش رفت ہے کہ سپریم کورٹ نے ایسی کسی چیز کی وضاحت کی ہے جو بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ہے اور وہ اے ایم ایل اے کا بھی ایک حصہ ہے۔

ایف بی آر کی سابق چیئرمین اور ممتاز چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ شبر زیدی کا کہنا ہے کہ کاروباری افراد اکثر غیر متوقع آمدنی یا اثاثوں کی صورت میں منی لانڈرنگ کا الزامات کا سامنا کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت کسی غیر اعلان شدہ اثاثہ یا کاروبار کی آمدنی کو دریافت کرنے کو حکام منی لانڈرنگ سمجھتے ہیں جبکہ یہ دراصل نامعلوم آمدنی کا معاملہ ہے، اب سپریم کورٹ نے واضح کردیا ہے کہ بغیر کسی بنیادی جرم کے منی لانڈرنگ نہیں ہوسکتی ہے اور یہ بنیادی جرم 2016 کے بعد ہی تسلیم کیا گیا ہے، اس کا مطلب ہے کہ منی لانڈرنگ کا الزام نامعلوم آمدنی اور اثاثوں کی صورتوں میں نہیں لاگو ہوگا‘۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں