جسٹس عیسیٰ ریفرنس میں غیرقانونی طریقے سے معلومات کے حصول پر جج کو تشویش

اپ ڈیٹ 05 نومبر 2020
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ غیرقانونی طریقے سے معلومات کے حصول نے جمہوری معاشرے کی بنیاد کو ہلا کر رکھ دیا ہے— فائل فوٹو بشکریہ سپریم کورٹ
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ غیرقانونی طریقے سے معلومات کے حصول نے جمہوری معاشرے کی بنیاد کو ہلا کر رکھ دیا ہے— فائل فوٹو بشکریہ سپریم کورٹ

اسلام آباد: جسٹس سید منصور علی شاہ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے اہل خانہ کی غیرقانونی نگرانی کے ذریعے لندن کے تین املاک کے بارے میں غیر قانونی طریقے سے معلومات کے حصول سے گہری تشویش پائی جارہی ہے اور اس نے قانون کی حکمرانی پر مبنی جمہوری معاشرے کی بنیاد کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس سید منصور علی شاہ نے صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس عیسیٰ کی درخواست پر بدھ کو جاری اپنے 65 صفحات پر مشتمل اختلاقی نوٹ میں کہا کہ غیر قانونی نگرانی اور درخواست گزار جج اور اس کے اہل خانہ کی پرائیویسی پر حملے کا معاملہ اثاثوں کی بازیابی یونٹ (اے آر یو) کے ذریعہ حاصل کردہ معلومات سے کہیں زیادہ اہم اور سنگین نوعیت کا ہے۔

مزید پڑھیں: فائز عیسیٰ کیس: 'کسی نے نہیں کہا جج کا احتساب نہیں ہوسکتا‘

جسٹس منصور علی شاہ نے اثاثوں کی بازیابی کا یونٹ یا اس کے چیئرمین مرزا شہزاد اکبر کے ذریعہ کی جانے والی آئینی خلاف ورزی کی سنگینی کو اجاگر کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا کہ یہ آئین کے تحت شہریوں کو فراہم کردہ ذاتی آزادی، پرائیویسی اور وقار کو ایک واضح خطرہ ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ رازداری کے حق کو یہ کہتے ہوئے کمترظاہر کرنا کہ جج کے پاس چھپانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے اس سے مختلف نہیں ہیں کہ آپ آزادی اظہار کی پروا نہیں کرتے کیونکہ آپ کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے، ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ کی تینوں املاک کے بارے میں معلومات کے حصول اور طریقہ کار کو ایسے ہی رد نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس میں ہمارے عوام کی منزل پوشیدہ اور ہمارے ملک کا مستقبل بھی شامل ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ایسٹ ریکوری یونٹ انٹیلیجنس ایجنسیوں کی مدد کے بغیر نگرانی یا مداخلت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، جس کی کابینہ نے کسی قانونی اختیار کے بغیر اتھارٹی دی تھی۔

جسٹس منصور نے مشاہدہ کیا کہ اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ خفیہ ایجنسیاں فیض آباد دھرنے کے فیصلے پر مشتعل تھیں کیونکہ اس نے ان کے کردار اور سرگرمی سے متعلق منفی مشاہدے کیے تھے، اسی وجہ سے خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے وزارت دفاع نے نظرثانی درخواستیں دائر کی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: ججز کو رنگ و نسل سے بالاتر ہو کر قانون کے مطابق فیصلے کرنے چاہیں، چیف جسٹس

انہوں نے کہا کہ مزید یہ کہ ایسٹ ریکوری یونٹ کے قانونی ماہر کی 26 جون 2019 کی رپورٹ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انہوں نے گزشتہ برسوں میں لندن جائیدادوں کے رہائشیوں کا سراغ اور جائیدادوں کے پتے تلاش کرنے کے لیے ٹریسنگ ایجنٹ کمپنی کی خدمات حاصل کیں۔

انہوں نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ ہر خلاف ورزی کے نتیجے میں آئینی عدالت کے جج کو ہٹایا یا ناقابل تلافی بدانتظامی نہیں کی جاتی، اس کے بجائے سب سے بہتر امتحان یہ ہے کہ کیا جج کی عدالتی سالمیت کو مجروح کرنے کے نتیجے میں عوام کا عدلیہ پر اعتماد اور بھروسے کو کم کیا گیا اور اس طرح عدالتی ادارے کی غیرجانبداری اور قانونی حیثیت کو خراب کیا گیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے مکمل تحقیقات شروع کرنے کے حوالے سے فیصلے کا معاملہ چیف جسٹس پر چھوڑ دیا ہے تاکہ ریفرنس میں جن افراد کو ملوث قرار دیا گیا ہے انہیں منصفانہ ٹرائل کا حق دیا جا سکے اور اس میں عائد الزامات کو توڑ مروڑ کر پیش نہ کیا جا سکے، ان کا کہنا ہے کہ اس سے عدلیہ کے وقار، ساکھ، استحقاق اور سالمیت کا بھی تحفظ ہوگا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم اور وزیر اعظم عمران خان ، اے آر یو کے چیئرمین اور اس کے قانونی ماہرین اور ایف بی آر، ایف آئی اے اور نادرا کے عہدیداروں کے ذریعے، ریفرنس پر کارروائی کرنے میں بے جا عجلت کے ذمہ دار تھے ، اور چونکہ آئینی پارلیمانی جمہوریت میں یہ معاملہ وزیر اعظم تک آ کر رک جاتا ہے لہٰذا ان بدانتظامی پر مبنی اقدامات کا سب سے زیادہ بوجھ ان کے کاندھوں پر پڑتا ہے جو ایک ایسی سیاسی جماعت کا رہنما بھی ہوتا ہے جس نے فیض آباد دھرنے کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر کرنے کے لیے حیرت انگیز طور پر انوکھی استدعا کرتے ہوئے آزادانہ رائے کا اظہار کرنے پر درخواست گزار جج کو نکالنے کا مطالبہ کیا تھا۔

مزید پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کو 'سیکیورٹی خطرے‘ کے طور پر کیوں دیکھا جاتا ہے، سرینا عیسیٰ کا صدر سے سوال

جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ ہماری آئینی جمہوریت میں یہ ضروری ہے کہ ہر ایک حکومتی دخل اندازی سے آزاد ہو کر اپنی آزادی فضا سے لطف اندوز ہو، بلکہ اس کا مقصد غیر قانونی سرگرمی کو روکنا ہونا چاہیے، رازداری، آزادی، خودمختاری زندگی اور وقار کے لازمی حصے ہیں اور ایک زندہ آئینی جمہوریت کی سرحدی خطوط کا تعین کرنے والی آئینی اقدار کی پاسداری کرتے ہیں۔

سپریم کورٹ کے مختصر فیصلے میں فیڈرل بورڈ ریونیو کو لندن جائیدادوں کے جائزے کے بارے میں حتمی رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل کو پیش کرنے کا حوالہ دیتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ نے مشاہدہ کیا کہ جسٹس عیسیٰ کے خلاف ریفرنس منسوخ ہونے کے بعد اس طرح کی کارروائی کا مطلب یہ ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کو اب غور کرنا چاہیے کہ کیا جج کو اس کے کنبے کے غلط امور کے لیے مبینہ طور پر ذمہ دار ٹھہرایا جاسکتا ہے، جو ایسا تصور ہے جو ججوں کے لیے طے شدہ ضابطہ اخلاق سے مختلف ہے اور جیسا کہ مذکورہ بالا بحث سے ثابت ہوا کہ اس کا عدالتی سالمیت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ کے مطابق سپریم کورٹ کسی کو بھی آئینی عدالت کے جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے شکایت کے اندراج اور پھر کونسل کو اس شکایت پر غور کرنے کی ہدایت نہیں کر سکتی، اس کے دور رس نتائج ہوں گے کیونکہ یہ کونسل کی آزادی اور غیرجانبداری ختم کرنے کے ساتھ ساتھ آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت آئینی عدالت کے جج کا تحفظ کرنے والی آئینی اسکیم کو بھی ختم کردے گی۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ بار کی جسٹس عیسیٰ کیس کے فیصلے کے پیراگرافس حذف کرنے کی درخواست

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ عدالتی آزادی یا عدالتی احتساب میں کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔ یہ ضروری ستون ہیں جو مل کر عوامی اعتماد اور عدالتی ادارے کے قانونی جواز کو برقرار رکھتے ہیں، عوامی تاثرات نظر اور اس سے قطع نظر کہ عدالت کے سامنے ایک عام مدعی یا زمین پر سب سے بڑی آئینی عدالت کا جج، عدلیہ کی اصل اور پائیدار طاقت آئین اور قانون کے مطابق بلا خوف و خطر اور مکمل احترام کے ساتھ فیصلے کرنے میں ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں