امریکی صدارتی انتخاب: جو بائیڈن کامیابی کے بہت قریب، ٹرمپ کا دھوکے کا الزام

اپ ڈیٹ 06 نومبر 2020
ٹرمپ کی پارٹی نے پوری ریاست وسکونسن میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی درخواست کی ہے—تصویر: رائٹرز
ٹرمپ کی پارٹی نے پوری ریاست وسکونسن میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی درخواست کی ہے—تصویر: رائٹرز
ایک روز گزرنے کے باوجود اب تک کوئی بھی امیدوار فتح کے لیے درکار 270 ووٹس حاصل نہیں کرپایا —تصویر: اے پی
ایک روز گزرنے کے باوجود اب تک کوئی بھی امیدوار فتح کے لیے درکار 270 ووٹس حاصل نہیں کرپایا —تصویر: اے پی
ڈیموکریٹس کے حامیوں نے ہر ووٹ گننے کا مطالبہ کیا—تصویر:اے ایف پی
ڈیموکریٹس کے حامیوں نے ہر ووٹ گننے کا مطالبہ کیا—تصویر:اے ایف پی

واشنگٹن: امریکی صدارت کے لیے ڈیموکریٹ امیدوار جو بائیڈن اب وائٹ ہاؤس سےمحض چند قدم کی دوری پر ہیں اور شکست کی صورت میں نتائج نہ تسلیم کرنے کی دھمکی دینے والے امریکی صدر کے لیے دوبارہ صدر بننے کی راہیں مسدود ہوتی جارہی ہیں۔

اب تک کے غیر حتمی نتائج کے مطابق جوبائیڈن 264 الیکٹورل ووٹس حاصل کرنے میں کامیاب ہوچکے جبکہ ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے ڈونلڈ ٹرمپ 214 الیکٹورل ووٹس کے ساتھ ان سے کہیں پیچھے ہیں۔

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کی رپورٹ کے مطابق جو بائیڈن نے سخت مقابلے والی 2 مزید ریاستوں مشی گن اور وِسکونسن میں کامیابی حاصل کر کے ’نیلی دیوار‘ (ڈیموکریٹس کی اکثریت والی ریاستیں) کے اہم حصے کو واپس پالیا جو 2016 کے انتخاب کے دوران ڈیموکریٹس کے ہاتھوں سے پھسل گئی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں:امریکی صدارتی انتخاب: ٹرمپ اور بائیڈن میں کانٹے کا مقابلہ

امریکی انتخاب کے لیے ووٹنگ کا عمل مکمل ہوئے ایک روز گزرنے کے باوجود اب تک کوئی بھی امیدوار فتح کے لیے درکار 270 ووٹس حاصل نہیں کرپایا تاہم بڑی جھیلوں کے نام سے مشہور ریاستوں میں کامیابی نے انہیں 264 ووٹس دلا دیے اور ممکنہ طور پر وہ اقتدار کا ہما اپنے سر رکھنے کے لیے تیار ہیں۔

جو بائیڈن امریکی تاریخ میں سب سے زیادہ 7 کروڑ ووٹ لینے والے پہلے امیدوار بن گئے—تصویر: اے ایف پی
جو بائیڈن امریکی تاریخ میں سب سے زیادہ 7 کروڑ ووٹ لینے والے پہلے امیدوار بن گئے—تصویر: اے ایف پی

جو بائیڈن اب تک 7 کروڑ 20 لاکھ 38 ہزار 30 ووٹس حاصل کر چکے ہیں جو امریکا کی تاریخ میں سب سے زیادہ ہیں جبکہ امریکی صدر کو اب تک 6 کروڑ 85 لاکھ 825 ووٹس مل چکے ہیں۔

جوبائیڈن نے اپنی نائب صدارتی امیدوار کمالا ہیرس کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے متوقع کامیابی کے پیشِ نظر کہا کہ ’میں ایک امریکی صدر کی طرح حکومت کروں گا، جب ہم جیت جائیں گے تو کوئی نیلی یا سرخ (دونوں جماعتوں سے منسوب رنگ) ریاست نہیں ہوگی صرف ریاست ہائے متحدہ امریکا ہوگا‘۔

نیویارک میں امریکی شہری ہر ووٹ ک گنتی کا مطالبہ کرتے ہوئے—تصویر: رائٹرز
نیویارک میں امریکی شہری ہر ووٹ ک گنتی کا مطالبہ کرتے ہوئے—تصویر: رائٹرز

واضح رہے بہت سی ریاستوں میں ڈاک کے ذریعے آنے والے ووٹس کو انتخابی دن کے 3 روز بعد تک موصول کرنے کی اجازت دے رکھی ہے لیکن اس کے لیے شرط ہے کہ اسے 3 نومبر کو ارسال کیا گیا ہو۔

امریکی صدر کا کہنا تھا کہ یہ ووٹس نہ گنے جائیں تاہم بائیڈن یہ کہتے ہوئے اپنے حامیوں کو صبر کی تلقین کرتے نظر آئے کہ انتخاب ’ابھی ختم نہیں ہوا جب تک ہر ووٹ کا شمار نہ ہوجائے، ہر ووٹ گنا جائے گا‘۔

دونوں جماعتوں کے حامیوں کے مظاہرے

خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بغیر کسی ثوبت کے الیکشن میں دھاندلی کا الزام عاید کر کے عدالت سے رجوع کرنے کا اعلان کیا تھا۔

بعدازاں گزشتہ روز ووٹ نہ گنے جانے سے متعلق افواہیں سن کر امریکی صدر کے تقریباً 200 حامی ایریزونا کے علاقے فونیکس میں ایک الیکشن آفس کے باہر پہنچ گئے جس میں کچھ رائفلز اور بندوقوں سے مسلح تھے۔

مظاہرین نے ووٹوں کی گنتی جاری رکھنے کا مطالبہ کیا—تصویر: اے ایف پی
مظاہرین نے ووٹوں کی گنتی جاری رکھنے کا مطالبہ کیا—تصویر: اے ایف پی

دوسری جانب ڈیٹروئیٹ میں حکام نے 30 افراد کو ووٹوں کی گنتی کے مقام میں داخل ہونے سے روک دیا جن میں زیادہ تر ریپبلکن تھے اور مشی گن میں ووٹون کی گنتی میں دھاندلی کا بے بنیاد الزام لگا رہے تھے۔

علاوہ ازیں دیگر شہروں میں امریکی صدر کے خلاف بھی ریلیاں نکالی گئیں جس میں مظاہرین نے ووٹوں کی گنتی جاری رکھنے کا مطالبہ کیا۔

ادھر پورٹ لینڈ میں پولیس نے ہنگاموں کی اطلاعات پر 11 افراد کو گرفتار کر کے ہتھیار اپنے قبضے میں لے لیے جبکہ نیویارک اور مینیا پولس میں بھی گرفتاریاں عمل میں آئیں۔

دوبارہ گنتی کی درخواست

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پارٹی نے سخت مقابلے والی سوئنگ ریاستوں میں پینسلوینا، مشی گن اور جیارجیا میں شکست کے پیشِ نظر قانونی دعوے دائر کردیے۔

اس سے قبل بھی ری پبلکنز کی جانب سے پینسلوینیا اور نیواڈا میں قانونی دعوے دائر کیے گئے تھے جن میں بیلٹس کی گنتی کے مقامات پر ان کے مبصرین کو بہتر رسائی دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: امریکی انتخابات میں ماضی کے مقابلے میں کیا کچھ مختلف ہوا؟

دوسری جانب ٹرمپ کی پارٹی نے پینسلوینا کے معاملے میں سپریم کورٹ کی مداخلت حاصل کرنے کی بھی کوشش کررہی ہے جو اس بات سے متعلق ہے کہ کیا ڈاک سے موصول ہونے والے بیلٹس انتخاب کے دن کے 3 روز بعد تک گنے جاسکتے ہیں۔

ادھر جو بائیڈن کے ہزاروں حامیوں نے نیویارک میں احتجاجی مارچ نکالا جس میں ہر ووٹ گننے کا مطالبہ کیا جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کے حامی مشی گن ریاست میں ووٹوں کی گنتی رکوانے کے لیے ڈیٹروئیٹ میں مظاہرہ کرتے نظر آئے۔

مشی گن، وِسکونسن اور ایریزونا وہ ریاستیں ہیں جنہوں نے 2016 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دیا تھا تاہم حالیہ انتخاب میں یہاں سے بازی جو بائیڈن کے نام رہی۔

علاوہ ازیں ٹرمپ کی پارٹی نے پوری ریاست وسکونسن میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی درخواست کی ہے جہاں جو بائیڈن کو 3 کروڑ 30 لاکھ ووٹس کا شمار ہوجانے کے بعد انتہائی معمولی یعنی 0.624 فیصد کی برتری حاصل ہے۔

کئی ریاستوں میں ووٹوں کی گنتی کا سلسلہ اب تک جاری ہے—تصویر: رائٹرز
کئی ریاستوں میں ووٹوں کی گنتی کا سلسلہ اب تک جاری ہے—تصویر: رائٹرز

خیال رہے کہ اب تک یہ واضح نہیں کہ کورونا وائرس اور امریکیوں اور معیشت پر اس کے اثرات سے غالب تلخ اور طویل مہم کے بعد امریکی صدر کا انتخاب جیتنے والے کا تعین کب اور کس طرح ہوگا تاہم جو بائیڈن کا وائٹ ہاؤس پہنچنے کا راستہ صاف ہوتا جارہا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں