بائیڈن یا ٹرمپ؟ امریکی صدارت کا فیصلہ اہم ریاستوں کے نتائج پر منحصر

اپ ڈیٹ 06 نومبر 2020
انتخابی دن کے 3 روز گزرنے کے باوجود کوئی امیدوار وائٹ ہاؤس کے لیے درکار ووٹس حاصل نہیں کرپایا—تصویر: رائٹرز
انتخابی دن کے 3 روز گزرنے کے باوجود کوئی امیدوار وائٹ ہاؤس کے لیے درکار ووٹس حاصل نہیں کرپایا—تصویر: رائٹرز
مقامی حکام کو الیکشن دفاتر کے باہر ہجوم اور ان کے لگاتار الزامات سے تشویش ہے—تصویر: اے ایف پی
مقامی حکام کو الیکشن دفاتر کے باہر ہجوم اور ان کے لگاتار الزامات سے تشویش ہے—تصویر: اے ایف پی
الیکشن حکام کو مظاہرین کی دھمکیوں کے سبب عملے کے تحفظ کے حوالے سے تشویش ہے—تصویر: اے ایف  پی
الیکشن حکام کو مظاہرین کی دھمکیوں کے سبب عملے کے تحفظ کے حوالے سے تشویش ہے—تصویر: اے ایف پی

امریکی صدارتی انتخاب کا نتیجہ 2 روز بعد بھی سامنے نہ آسکا جبکہ چند سوئنگ (سخت مقابلے والی) ریاستوں نے ووٹوں کی گنتی کا عمل مکمل کرلیا۔

غیر ملکی خبررساں اداروں کے مطابق کامیابی کے لیے درکار 270 میں سے ڈیموکریٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے جو بائیڈن اب تک 264 الیکٹورل ووٹس حاصل کرنے میں کامیاب رہے جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ 214 الیکٹورل ووٹس ہی سمیٹ سکے ہیں تاہم اب بھی کئی ریاستوں کے نتائج آنا باقی ہیں۔

ان 5 اہم ریاستوں کے نتائج آنا ابھی باقی ہیں ان میں اب تک کے نتائج کے مطابق 2 ریاستوں میں جو بائیڈن جبکہ 3 ریاستوں میں جو بائیڈن کو برتری حاصل ہے۔

ان ریاستوں میں ریاست جارجیا کے 16 الیکٹورل ووٹس، شمالی کیرولینا کے 15 الیکٹورل ووٹس جبکہ نیواڈا کے 6 الیکٹورل ووٹس ہیں۔

تاہم نارتھ کیرولینا میں انتخاب سے قبل ڈاک کے ذریعے بھیجے گئے ووٹس کی گنتی 12 نومبر تک مکمل ہونے کا امکان ہے۔

انتخابی دن کے 3 روز گزرنے کے باوجود کوئی اُمیدوار وائٹ ہاؤس کے لیے درکار ووٹس حاصل نہیں کرپایا تاہم بڑی جھیلوں کے نام سے معروف ریاستوں میں جو بائیڈن کی کامیابی نے انہیں 264 ووٹس حاصل کروادیے ہیں یعنی وہ صدر منتخب ہونے کے لیے صرف ایک سوئنگ ریاست کے نتیجے کی دوری پر ہیں۔

متعدد علاقوں میں نتائج کے خلاف احتجاج جاری ہیں—تصویر: رائٹرز
متعدد علاقوں میں نتائج کے خلاف احتجاج جاری ہیں—تصویر: رائٹرز

اگر ریاست ایریزونا میں جو بائیڈن کی برتری برقرار رہتی ہے تو جارجیا، شمالی کیرولینا یا نیواڈا میں سے کسی ایک ریاست میں جیت انہیں وائٹ ہاؤس پانے کے لیے درکار جادوئی نمبر تک پہنچا دے گی تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے صدارتی دوڑ میں شامل رہنے کے لیے ان تینوں ریاستوں میں جیتنا ضروری ہے۔

ادھر نیواڈا میں نتائج جو بائیڈن کے حق میں جارہے ہیں اور ایریزونا میں کامیابی بقرار رہی تو نیواڈا سے انہیں جیت کے لیے مطلوبہ 6 الیکٹورل ووٹس حاصل ہوسکتے ہیں، یہاں 89 فیصد ووٹوں کی گنتی ہوچکی ہے جن کے مطابق جو بائیڈن کو ساڑھے 11 ہزار ووٹس کی برتری حاصل ہے۔

نتائج کے اعلان میں تاخیر کی وجہ بڑی تعداد میں ڈاک سے ووٹوں کا موصول ہونا ہے—تصویر: اے ایف پی
نتائج کے اعلان میں تاخیر کی وجہ بڑی تعداد میں ڈاک سے ووٹوں کا موصول ہونا ہے—تصویر: اے ایف پی

اس سب سے ہٹ کر ریاست پینسلوینیا سب سے بڑا معرکہ ہے جس کے 20 الیکٹورل ووٹس ہیں، جیارجیا میں اب تک ڈونلڈ ٹرمپ کی پوزیشن بہتر ہے تاہم ڈیموکریٹس کے حمایتی علاقوں مثلاً گریٹ فلی ڈیلفیا میں اکثر ووٹوں کی گنتی ابھی ہونا باقی ہے۔

نتائج میں تاخیر کی سب سے بڑی وجہ عالمی وبا کورونا وائرس کی وجہ سے ڈاک کے ذریعے دیے گئے ووٹس کا انبار ہے اور ان ووٹوں کا نتیجہ جو بائیڈن کے حق میں جانے کا امکان ہے۔

ایک جانب جو بائیڈن کو ایریزونا کی کامیابی برقرار رکھتے ہوئے نیواڈا یا جارجیا میں جیتنے کی ضرورت ہے جو انہیں درکار 270 الیکٹورل ووٹس فراہم کرے گی تو دوسری جانب شمالی کیرولینا، جیارجیا میں برتری رکھنے والے امریکی صدر کے لیے نیواڈا کے ساتھ ساتھ پیسلوینیا میں بھی کامیابی سمیٹنا ضروری ہے۔

انتخابی عملے کو دھمکیوں پر تشویش

متعدد امریکی ریاستوں میں الیکشن حکام، امریکی صدر کی جانب سے انتخاب میں دھاندلی کے بے بنیاد دعوے کے بعد اپنے دفاتر کے باہر جمع ہونے والے مشتعل مظاہرین کی دھمکیوں کے باعث اپنے عملے کے تحفظ کے لیے فکر مند ہیں۔

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) سے بات کرتے ہوئے نیواڈا کے ایک رجسٹرار نے کہا کہ ’میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ میری اہلیہ اور میری والدہ میرے حوالے سے کتنی فکر مند ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کا عملہ نہ صرف سیکیورٹی میں اضافہ کررہا ہے بلکہ انتخابی دفاتر آنے اور جانے والی گاڑیوں کی بھی نگرانی کررہا ہے۔

ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ وہ اور دیگر افراد ’ووٹوں کی گنتی کرنے کے اپنے فرض سے پیچھے نہیں ہٹیں گے‘۔

فوئینیکس، ڈیٹروئیٹ اور فلی ڈیلفیا میں ووٹوں کی گنتی کے مقامات پر امریکی صدر کے حامی گروہوں کی شکل میں اکھٹے ہوئے اور ایسے نتائج کو ماننے سے انکار کیا جس میں جو بائیڈن کو برتری حاصل تھی۔

انتخابی عملہ اپنے دفتر میں ووٹوں کی گنتی کررہا ہے—تصویر: اے ایف پی
انتخابی عملہ اپنے دفتر میں ووٹوں کی گنتی کررہا ہے—تصویر: اے ایف پی

حالانکہ مظاہرے پرتشدد یا بہت بڑے نہیں تھے لیکن مقامی حکام کو ہجوم اور ان کے لگاتار الزامات سے تشویش ہے۔

دوسری جانب سماجی روابط کی ویب سائٹ فیس بک نے ’اسٹاپ دی اسٹیل‘ یعنی چوری روکو نامی فیس بک گروپ پر پابندی لگادی جو ڈونلڈ ٹرمپ کے حامی ووٹوں کی گنتی کے خلاف احتجاج منعقد کرنے کے لیے استعمال کررہے تھے، اس گروپ میں 3 لاکھ 50 ہزار سے زائد اراکین تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں