امریکا نے چین کی ’ایسٹ ترکستان اسلامی موومنٹ‘ کا نام دہشت گردی فہرست سے خارج کردیا

اپ ڈیٹ 08 نومبر 2020
چین نے امریکی فیصلے کی سخت مذمت کی ہے— فوٹو: اے ایف پی
چین نے امریکی فیصلے کی سخت مذمت کی ہے— فوٹو: اے ایف پی

امریکا نے اپنی دہشت گرد گروہوں کی فہرست میں سے ایسٹ ترکستان اسلامی موومنٹ (ای ٹی آئی ایم) کا نام خارج کردیا۔

واضح رہے کہ چین کی جانب سے ای ٹی آئی ایم کی کارروائیوں کو جواز بنا کر مسلم اکثریتی سنکیانگ خطے میں سخت کریک ڈاؤن کیا جاتا رہا ہے۔

مزید پڑھیں: ایغور مسلمانوں کا معاملہ، امریکا نے چینی عہدیداروں پر پابندیاں عائد کردیں

امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے کہا کہ ایسٹ ترکستان اسلامی موومنٹ کے نام کو ’دہشت گرد تنظیم‘ کے طور پر خارج کیا جارہا ہے۔

محکمہ خارجہ کے ترجمان نے بتایا کہ ’ای ٹی آئی ایم کو اس فہرست سے ہٹا دیا گیا کیونکہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے اس بات کا کوئی قابل اعتماد ثبوت موجود نہیں ہے کہ ای ٹی آئی ایم کا وجود برقرار ہے‘۔

خیال رہے کہ 2004 میں جارج ڈبلیو بش کی انتظامیہ نے ای ٹی آئی ایم کو بلیک لسٹ میں شامل کیا تھا کیونکہ واشنگٹن اور بیجنگ دونوں کی زیر قیادت دہشت گردی کے خلاف جنگ مشترکہ مقصد تھا۔

بیجنگ کی جانب سے ای ٹی آئی ایم کو حملوں کا مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے اور صوبہ سنکیانگ میں اسی تنظیم کی موجودگی کو جواز بنا کر مسلمانوں کو کیمپوں میں قید رکھا جاتا ہے۔

واشنگٹن میں واقع ایغور ہیومن رائٹس پروجیکٹ نے محکمہ خارجہ کے فیصلے کو ’طویل التوا‘ اور ’چین کے دعوؤں کی قطعی تردید‘ قرار دیا۔

مزید پڑھیں: چین: صوبہ سنکیانگ میں وسیع پیمانے پر اسکریننگ کا فیصلہ

دوسری جانب چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے امریکی فیصلے پر سخت عدم اطمینان اور سخت مخالفت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن ’بین الاقوامی دہشت گردی کے خلاف عالمی تعاون‘ پر غور کرے۔

خیال رہے کہ جولائی میں امریکا نے سنکیانگ میں مسلم اقلیتوں کے خلاف انسانی حقوق کی پامالی کے ذمہ داران چینی سیاست دانوں کے خلاف پابندیوں کا اعلان کردیا تھا۔

چین پر ایغور مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں کے خلاف بڑے پیمانے پر نظر بندیوں، مذہبی ظلم و ستم اور زبردستی نس بندی کا الزام ہے۔

چینی صوبے سنکیانگ کی آبادی ایک کڑور کے قریب ہے جن میں سے زیادہ تر مسلمان اقلیت ایغور سے تعلق رکھتے ہیں۔

مزید پڑھیں: سنکیانگ کے کیمپوں میں موجود اکثر افراد کو واپس بھیج دیا، چین

ماضی میں اس خطے میں ایغور مسلمانوں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپیں ہوتی رہی ہیں اور چین اپنے مغربی صوبے سنکیانگ میں کشیدگی کا ذمہ دار علیحدگی پسند گروپ کو ٹھہراتا ہے۔

بیجنگ کی جانب سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس نے اس علاقے میں معاشی ترقی کے لیے اقدامات کیے ہیں اور حکومت اقلیتوں کے حقوق میں مساوات برقرار رکھنے کے لیے کوشاں ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں