روس کی سپوتنک وی نئے کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 سے تحفظ میں 92 فیصد تک موثر ہے۔

یہ دعویٰ روس کے رشین ڈائریکٹ انوسٹمینٹ فنڈ (آر ڈی آئی ایف) نے اس ویکسین کے تیسرے اور آخری مرحلے کے ٹرائل کے ابتدائی نتائج میں کیا۔

یہ دوسری ویکسین ہے جس کے آخری مرحلے کے انسانی ٹرائل کے نتائج جاری کیے گئے ہیں۔

اس سے قبل 9 نومبر کو فائزر اور بائیو این ٹیک کی تجرباتی ویکسین کے ابتدائی نتائج سامنے آئے تھے، جن میں اسے بیماری سے تحفظ کے لیے 90 فیصد سے زیادہ موثر قرار دیا گیا تھا۔

روس کی ویکسین کے ٹرائل کے دوران 20 رضاکاروں میں کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی اور پھر تجزیہ کیا گیا کہ ان میں سے کتنے افراد ویکسین لینے والے تھے اور کتنے پلیسبو گروپ کا حصہ تھے۔

یہ تعداد فائزر اور بائیو این ٹیک کے ویکسین ٹرائل میں شامل ان 94 افراد سے بہت کم ہے جن میں وائرس کی تشخیص ہوئی۔

فائزر کا کہنا تھا کہ ویکسین کی افادیت کی شرح کی تصدیق کے لیے وہ ٹرائل کو اس وقت تک جاری رکھے گی جب تک کووڈ 19 کے 164 کیسز ریکارڈ نہیں ہوجاتے۔

دوسری جانب آر ڈی آئی ایف کا کہنا ہے کہ سپوتنک وی کا ٹرائل 6 ماہ تک جاری رہے گا۔

اس ویکسین کو تیار کرنے والے ماسکو کے گمالیا انسٹیٹیوٹ نے ایک بیان میں بتایا کہ ابتدائی نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ سپوتنک وی موثر ہے اور آنے والے ہفتوں میں اسے روس میں بڑے پیمانے پر متعارف کرایا جائے گا۔

چین کی کمپنی سینوفارم کی جانب سے بھی 2 کووڈ 19 ویکسینز کا ٹرائل آخری مرحلے میں ہے اور اس کی جانب سے 11 نومبر کو کہا گیا کہ ڈیٹا توقعات سے زیادہ بہتر رہا ہے، مگر مزید تفصیلات جاری نہیں کی گئیں۔

امید ہے کہ چینی کمپنی کی جانب سے نتائج جلد جاری کیے جاسکتے ہیں۔

کورونا وائرس سے دنیا بھر میں متاثر ہونے والی روزمرہ کی زندگی کی بحالی کے ویکسینز کی کامیابی کو بہت اہمیت دی جارہی ہے۔

مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ روسی ٹرائل کو اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ اس بارے میں تفصیلات دیگر تک نہ پہنچیں، جس کی وجہ سے ڈیٹا کی وضاحت مشکل ہے۔

سائنسدانوں نے روس کی جانب سے تحفظ اور افادیت کے حوالے سے ٹرائلز مکمل ہونے سے قبل بڑے پیمانے پر ویکسینیشن کے عمل پر خدشات ظاہر کیے گئے ہیں۔

ایڈنبرگ یونیورسٹی کے وبائی امراض اور امیونولوجی کی پروفیسر ایلانور ریلے کے مطابق 'یہ کوئی مقابلہ نہیں، ہمیں ہر معیار کو سامنے رکھتے ہوئے ٹرائلز کرنے چاہیے اور ابتدائی نتائج میں اپنی مرضی کے ڈیٹا کو چننے سے گریز کرنا چاہیے، ورنہ لوگوں کا ویکسینز پر سے اعتماد ختم ہوجائے گا، جو کہ تباہ کن ہوگا'۔

روسی ٹرائل کے نتائج اولین 16 ہزار رضاکاروں کے ڈیٹا پر مبنی تھے جن کو ویکسین کے 2 ڈوز کا استعمال کرایا گیا تھا۔

آر ڈی آئی ایف کے سربراہ کیرل دیمیتروف نے بتایا 'ڈیٹا کی بنیاد پر ہم ثابت کررہے ہیں کہ ہمارے پاس ایک بہت موثر ویکسین ہے'۔

اس ویکسین کے تیسرے مرحلے کے ٹرائل کا انعقاد ماسکو بھر میں 29 کلینکس میں ہوگا جس میں مجموعی طور پر 40 ہزار رضاکار شامل ہوں گے جن میں سے 25 فیصد کو ویکسین کی جگہ پلیسبو استعمال کرایا جائے گا۔

آر ڈی آئی ایف کے مطابق سپوتنک وی لینے والے افراد میں کووڈ 19 کا امکان پلیسبو لینے والوں کے مقابلے میں 92 فیصد تک کم ہوتا ہے۔

آر ڈی آئی ایف کا کہنا تھا کہ تحقیق کے ڈیٹا کو ایک جلد کسی موقر طبی جریدے میں شائع کیا جائے گا جس کے بعد ماہرین سے اس پر نظرثانی کرائی جائے گی۔

ماہرین کے مطابق فائزر اور روسی ویکسینز کے ابتدائی نتائج میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ ان کے استعمال سے بیماری سے کتنے عرصے تک تحفظ ملے گا اور مختلف عمروں کے گروپس میں وہ کتی موثر ہوں گی۔

روس نے دنیا میں سب سے پہلے اگست میں ویکسین کو عوامی استعمال کے لیے رجسٹر کرایا تھا اور ستمبر میں تیسرے مرحلے کے ٹرائل کا آغاز کیا تھا۔

اب تک اس ویکسین کو زیادہ خطرے سے دوچار گروپ جیسے ڈاکٹروں اور اساتذہ کوو استعمال کرایا گیا جن کی تعداد 10 ہزار سے زیادہ ہے اور وہ اس ٹرائل کا حصہ نہیں۔

یہ ویکسین 21 دن کے دوران 2 ڈوز کی شکل میں استعمال کرائی جاتی ہے اور اس کی تیاری کے لیے عام نزلہ زکام کا باعث بننے والے 2 ایڈنو وائرسز کا استعمال کیا گیا ہے۔

دوسری جانب فائزر کی ویکسین میں میسنجر آر این اے ٹیکنالوجی کو استعمال کیا گیا۔

روس میں ایک اور ویکسین کی آزمائش بھی کی جارہی ہے جو وکٹر انسٹیٹوٹ نے تیار کی ہے۔

آر ڈی آئی ایف کے مطابق سپوتنک وی کے تیسرے مرحلے کے ٹرائل کے دوران اب تک کسی رضاکار نے کسی خطرناک اثر کو رپورٹ نہیں کیا، تاہم کچھ کو انجیکشن کے مقام پر کچھ دن تک تکلیف، فلو جیسی علامات کا سامنا ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں