آرمینیائی لوگوں نے گاؤں آذربائیجان کے حوالے کرنے سے قبل اپنے گھروں کو آگ لگادی

اپ ڈیٹ 15 نومبر 2020
ہزاروں مظاہرین ‘نیکول غدار’ کے نعرے لگاتے ہوئے منصب سے الگ ہونے کا مطالبہ کر رہے تھے۔—فوٹو: رائٹرز
ہزاروں مظاہرین ‘نیکول غدار’ کے نعرے لگاتے ہوئے منصب سے الگ ہونے کا مطالبہ کر رہے تھے۔—فوٹو: رائٹرز
ہزاروں مظاہرین ‘نیکول غدار’ کے نعرے لگاتے ہوئے منصب سے الگ ہونے کا مطالبہ کر رہے تھے۔—فوٹو: رائٹرز
ہزاروں مظاہرین ‘نیکول غدار’ کے نعرے لگاتے ہوئے منصب سے الگ ہونے کا مطالبہ کر رہے تھے۔—فوٹو: رائٹرز

نیگورنو-کاراباخ سے باہر رہائش پذیر آرمینیائی لوگوں نے جنگ بندی معاہدے کے تحت گاؤں کو چھوڑنے سے قبل اپنے گھروں کو آگ لگادی۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق 10 نومبر کو آرمینیا اور آذربائیجان نے بدترین لڑائی کے بعد جنگ بندی معاہدے کا اعلان کیا تھا جس کے تحت نیگورنو-کاراباخ سے باہر رہنے والے آرمینیائی لوگوں کو گاؤں چھوڑ کر مذکورہ زمینیں آذربائیجان کے حوالے کرنی تھیں۔

مزید پڑھیں: آرمینیا، آذربائیجان اور روس نے نیگورنو۔کاراباخ میں لڑائی کے خاتمے کے معاہدے پر دستخط کردیے

کئی دہائیوں سے آرمینی علیحدگی پسندوں کے زیر کنٹرول آذربائیجان کے ضلع کالباجار کے رہائشیوں نے بڑے پیمانے پر نقل مکانی شروع کردی ہے، کیونکہ معاہدے کے بعد مذکورہ علاقے پر آذربائیجان دوبارہ اقتدار سنبھالے گا۔

روس کے ساتھ ہونے والے معاہدے میں آذربائیجان کے نیگورنو۔کاراباخ خطے میں جاری لڑائی روکنے کے اعلان کے ساتھ تقریباً 2 ہزار روسی فوجیوں کو قیام امن کے لیے علاقے میں تعینات کرنے اور علاقوں سے آرمینیا کا قبضہ ختم کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔

نیگورنو-کاراباخ میں تازہ جھڑپیں 27 ستمبر کو شروع ہوئی تھیں اور پہلے روز کم ازکم 23 افراد ہلاک ہوگئے تھے جبکہ فوری طور پر روس اور ترکی کشیدگی روکنے کا مطالبہ کیا تھا۔

آرمینیا نے ہفتہ کے روز کہا کہ ان جھڑپوں میں اس کے 2 ہزار 317 فوجی مارے گئے۔

آذربائیجان نے اپنی فوجی ہلاکتوں کا انکشاف نہیں کیا اور ہفتوں کی لڑائی کے بعد حقیقی تعداد زیادہ ہونے کی امید ہے۔

یہ بھی پڑھیں: آذربائیجان کی فورسز نے 'غلطی' سے روسی ہیلی کاپٹر مار گرایا، 2 فوجی ہلاک

روسی صدر ولادی میر پوتن نے رواں ہفتے کہا تھا کہ ہلاکتوں کی تعداد 4 ہزار سے زیادہ ہے اور ہزار افراد گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔

اے ایف پی کے ایک صحافی نے دیکھا کہ شام کے پڑوسی ضلع مارٹارکیٹ، آرمینیائی کنٹرول میں تھا، کے سرحدی گاؤں چریکٹر میں کم از کم 6 گھروں کو نذر آتش کردیا گیا۔

ایک رہائشی نے کہا کہ 'یہ میرا گھر ہے، میں اسے آذریوں کے پاس نہیں چھوڑ سکتا'۔

ایک اور آرمینیائی رہائشی نے کہا کہ 'آج ہر شخص اپنے گھر کو نذر آتش کرنے والا ہے، ہمیں آدھی رات تک جانے کے لیے ٹائم دیا گیا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے والدین کی قبریں بھی منتقل کی ہیں، آذری افراد قبروں کی بے حرمتی کرنے میں بہت خوشی محسوس کریں گے جو ناقابل برداشت ہے۔

مزید پڑھیں: نیگورنو-کاراباخ جنگ بندی: آرمینیا کے وزیراعظم کے خلاف احتجاج، استعفے کا مطالبہ

واضح رہے کہ نیگورنو-کاراباخ میں 6 ہفتوں کی لڑائی کے بعد آذربائیجان سے جنگ بندی کے معاہدے پر دستخظ کرنے پر آرمینیا کے وزیر اعظم نیکول پیشینیان کے خلاف شدید احتجاج اور استعفے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

ہزاروں مظاہرین ‘نیکول غدار’ کے نعرے لگاتے ہوئے منصب سے الگ ہونے کا مطالبہ کر رہے تھے۔

آرمینیا کے دارالحکومت یریوان میں ہزاروں افراد نے پارلیمنٹ کی طرف مارچ کیا لیکن پولیس نے انہیں روکا، تاہم مظاہرین نے ‘نیکول استعفیٰ دے دو’ کے نعرے لگائے۔

دہائیوں پرانا تنازع

خیال رہے کہ رواں سال ستمبر کے آخری ہفتے میں دہائیوں سے جاری ناگورنو-کاراباخ تنازع کا ایک بار پھر آغاز ہوا اور اب تک 80 عام شہریوں سمیت تقریبا 700 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

واضح رہے کہ نیگورنو-کاراباخ کو بین الاقوامی سطح پر آذربائیجان کا حصہ تسلیم کیا جاتا ہے لیکن 1994 میں دونوں ممالک کے درمیان جنگ کے اختتام کے بعد سے اس کا حکومتی انتظام آرمینیائی نسل کے مقامی افراد کے پاس ہے۔

مزید پڑھیں: آذربائیجان، آرمینیا کے درمیان ثالثی کی پہلی کوشش، لڑائی بدستور جاری

اس جنگ میں تقریباً 30 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔

آرمینیا، جو ناگورنو-کاراباخ کی پشت پناہی کرتا ہے تاہم اس کی آزادی کو تسلیم نہیں کرتا ہے، نے اعتراف کیا ہے کہ آذربائیجان کی افواج نے گزشتہ ہفتہ سرحد پر اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔

اے ایف پی کی ایک ٹیم کو آذربائیجان کی فوج ایرانی سرحد کے قریب متنازع علاقے کے جنوبی حصے میں دوبارہ قبضہ کرلی گئی ایک بستی میں لے کر گئی۔

آذربائیجان کے عہدیداروں کا کہنا تھا کہ انہوں نے آخری بار جبرائیل کا کنٹرول سوویت جنگ کے بعد حاصل کیا تھا، موجودہ کشیدگی اس 6 سالہ تنازع کے بعد مہلک اور طویل ترین ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں