نیگورنو-کاراباخ جنگ بندی: آرمینیا کے وزیراعظم کے خلاف احتجاج، استعفے کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 11 نومبر 2020
مظاہرین نے وزیراعظم کو غدار قرار دیتے ہوئے ان سے استعفے کا مطالبہ کیا —فوٹو: رائٹرز
مظاہرین نے وزیراعظم کو غدار قرار دیتے ہوئے ان سے استعفے کا مطالبہ کیا —فوٹو: رائٹرز

نیگورنو-کاراباخ میں 6 ہفتوں کی لڑائی کے بعد آذربائیجان سے جنگ بندی کے معاہدے پر دستخظ کرنے پر آرمینیا کے وزیر اعظم نیکول پیشینیان کے خلاف شدید احتجاج اور استعفے کا مطالبہ کیا گیا۔

خبر ایجنسی ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق ہزاروں مظاہرین ‘نیکول غدار’ کے نعرے لگاتے ہوئے منصب سے الگ ہونے کا مطالبہ کر رہے تھے۔

آرمینیا کے دارالحکومت یریوان میں ہزاروں افراد نے پارلیمنٹ کی طرف مارچ کیا لیکن پولیس نے انہیں روکا، تاہم مظاہرین نے ‘نیکول استعفیٰ دے دو’ کے نعرے لگائے۔

مزید پڑھیں: آرمینیا، آذربائیجان اور روس نے نیگورنو۔کاراباخ میں لڑائی کے خاتمے کے معاہدے پر دستخط کردیے

عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ پولیس کی جانب سے کئی مظاہرین کو گرفتار کیا گیا لیکن تاحال جھڑپوں یا نقصان کے حوالے سے کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔

—فوٹو: رائٹرز
—فوٹو: رائٹرز

خیال رہے کہ 10 نومبر کو آرمینیا اور آذربائیجان نے بدترین لڑائی کے بعد جنگ بندی معاہدے کا اعلان کیا تھا اور آذربائیجان میں اس کو فتح کے طور پر منایا گیا تھا۔

روس کے ساتھ ہونے والے معاہدے میں آذربائیجان کے نیگورنو۔کاراباخ خطے میں جاری لڑائی روکنے کے اعلان کے ساتھ تقریباً 2 ہزار روسی فوجیوں کو قیام امن کے لیے علاقے میں تعینات کرنے اور علاقوں سے آرمینیا کا قبضہ ختم کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔

آرمینیا کے وزیراعظم نے اس کو سانحہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ شکست کے آثار کو دیکھتے ہوئے اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔

ایک روز بعد مظاہرین نے سڑکوں پر مارشل لا طرز کی پابندی کو روندتے ہوئے ریلیاں نکالیں اور وزیر اعظم کے استعفے کا مطالبہ کیا جبکہ چند ایک سرکاری عمارتوں کو نذر آتش بھی کیا۔

یہ بھی پڑھیں: آذربائیجان، آرمینیا کے درمیان ثالثی کی پہلی کوشش، لڑائی بدستور جاری

آرمینیا میں کورونا وائرس کے کیسز میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اسی لیے کئی مظاہرین نے ماسک پہنا ہوا تھا۔

واضح رہے کہ جنگ بندی معاہدے کے بعد عالمی سطح پر تسلیم شدہ آذربائیجان کے علاقے نیگورنو-کاراباخ میں لڑائی ختم ہوگئی ہے۔

معاہدے کے تحت روس کے 2 ہزار فوجی امن کے قیام کے لیے خطے میں تعینات ہوں گے جہاں 1990 کی دہائی میں ہونے والی لڑائی کے بعد آرمینیا کا قبضہ تھا لیکن اب حالیہ لڑائی میں وہ اکثریتی علاقے سے محروم ہوچکا ہے۔

آرمینیا کے وزیراعظم نے کہا تھا کہ میں نے امن معاہدے کو اپنی فوج کے دباؤ پر حتمی شکل دی، نیگورنو-کاراباخ کی قیادت کا کہنا تھا کہ خطے کے دوسرے بڑے شہر شوشا پر قبضے کے بعد پورے علاقے پر آذربائیجان کے قبضے کا خدشہ ہے۔

نیکول پیشینیان نے معاہدے کے بعد کہا تھا کہ ‘یہ بہت بڑی ناکامی اور سانحہ ہے’ اور اس ناکامی کی ذاتی طو پر ذمہ داری لیتا ہوں، لیکن استعفے کے مطالبے کو مسترد کردیا۔

آرمینیا کے وزیراعظم نے دارالحکومت میں شروع ہونے والے مظاہروں کے حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا تاہم اپوزیشن کی 17 جماعتوں کی جانب سے ان کے استعفے کا مطالبہ کیا گیا تھا جن کے اکثر رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا ہے۔

دوسری جانب خطے میں امن برقرار رکھنے کے لیے روس کے فوجی بھی روانہ ہوگئے ہیں اور آرمینیا کو نیگورنو-کاراباخ سے ملانے والی لیچن راہداری میں تعینات ہوں گے۔

مزید پڑھیں: آذربائیجان کی فورسز نے 'غلطی' سے روسی ہیلی کاپٹر مار گرایا، 2 فوجی ہلاک

معاہدے کے مطابق روس کی امن فوج 5 برس تک موجود رہے گی جبکہ روس اور آرمینیا کے درمیان پہلے سے ہی دفاعی معاہدہ ہے۔

ترکی نے آذربائیجان کے اتحادی کی حیثیت سے اس جنگ بندی کے معاہدے پر کوئی کردار ادا نہیں کیا، تاہم روس اور ترکی نے مشترکہ طور پر نگرانی کے ایک معاہدے پر دستخط کیے۔

ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا کہ نیگورنو-کاراباخ میں قیام امن کے لیے دونوں ممالک مل کر کام کریں گے۔

ادھر آذربائیجان نے جنگ بندی معاہدے کو اپنی فتح قرار دیا جبکہ شہریوں کی ایک تعداد دلبرداشتہ بھی ہے کہ فوج کی مزید علاقوں پر قبضے کی پیش قدمی کو روک دیا گیا ہے۔

آذربائیجان کے شہریوں کو امن فوج کی حیثیت سے روس کی آمد پر بھی خدشات ہیں جبکہ روس پورے خطے میں بااثر ملک ہے۔

نیگورنو-کاراباخ تنازع

آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان 1990 میں سوویت یونین سے آزادی کے ساتھ ہی کاراباخ میں علیحدگی پسندوں سے تنازع شروع ہوا تھا اور ابتدائی برسوں میں 30 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔

دونوں ممالک کے درمیان 1994 سے حالیہ لڑائی تک تنازع کے حل کے لیے مذاکرات میں واضح پیش رفت نہیں ہوسکی تھی تاہم جنگ بندی کے متعدد معاہدے ہوتے رہے۔

آرمینیا کے پشت پناہی کے ساتھ آرمینیائی نسل کے علیحدگی پسندوں نے 1990 کی دہائی میں ہونے والی لڑائی میں نیگورنو-کاراباخ خطے کا قبضہ باکو سے حاصل کرلیا تھا لیکن نیگورنو-کاراباخ کو بین الاقوامی سطح پر آذربائیجان کا حصہ تسلیم کیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: آذربائیجان، آرمینیا کے درمیان ثالثی کی پہلی کوشش، لڑائی بدستور جاری

بعد ازاں فرانس، روس اور امریکا نے ثالثی کا کردار ادا کیا تھا لیکن 2010 میں امن معاہدہ ایک مرتبہ پھر ختم ہوگیا تھا۔

نیگورنو-کاراباخ میں تازہ جھڑپیں 27 ستمبر کو شروع ہوئی تھیں اور پہلے روز کم ازکم 23 افراد ہلاک ہوگئے تھے جبکہ فوری طور پر روس اور ترکی کشیدگی روکنے کا مطالبہ کیا تھا۔

نیگورنو-کاراباخ کا علاقہ 4 ہزار 400 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے اور 50 کلومیٹر آرمینیا کی سرحد سے جڑا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں