کورونا وائرس کی نئی قسم نے اس کے پھیلاؤ کی رفتار بڑھا دی، تحقیق

15 نومبر 2020
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو

کووڈ 19 کا باعث بننے والا وائرس اب وہ نہیں رہا جو سب سے پہلے چین میں نمودار ہوا تھا بلکہ اس نے خود کو کچھ اس طرح بدل لیا ہے کہ وہ انسانوں کے لیے زیادہ متعدی ہوگیا ہے۔

یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

تحقیق میں اصل وائرس کا موازنہ اس نئی قسم 614 جی سے متاثر افراد سے کیا گیا، تو ان کے ناک اور حلق میں وائرل لوڈ زیادہ تھا، جس سے بیماری کی شدت میں تو اضافہ نہیں ہوا، مگر دیگر تک اس کی منتقلی کی شرح بڑھ گئی۔

نارتھ کیرولائنا یونیورسٹی کی اس تحقیق میں شامل پروفیسر رالف برائس نے بتایا 'یہ بات قابل فہم ہے'۔

اس تحقیق میں بتایا گیا کہ وائرس کی اس نئی قسم نے اپنے اسپائیک پروٹینز کو بدلا ہے، یعنی وہ حصہ جو انسانی خلیات کو متاثر کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔

تحقیق کے مطابق اس تبدیلی سے وائرس کی یہ قسم زیادہ بہتر شکاری بن گئی، کیونکہ یہ برق رفتار سے جسم کے اندر ایک سے دوسرے خلیات تک پہنچ کر تیزی سے اپنی نقول بناتی ہے۔

وائرس کی یہ قسم سب سے پہلے فروری 2020 میں یورپ میں ابھری تھی اور بہت تیزی سے دنیا بھر میں کورونا کی بالادست قسم بن گئی۔

اس تحقیق اس کے دنیا بھر میں پھیلنے کی وضاحت کرنے میں مدد ملتی ہے اور پروفیسر رالف کا کہنا تھا کہ یہ وائرس ممکنہ طور پر چمگادڑوں سے منتقل ہوا اور انسانوں کی شکل میں اپنے نئے میزبان کو دریافت کرلیا۔

کسی بھی انسان میں اس وائرس کے خلاف مدافعتی دفاع موجود نہیں تھا اور یہی ہمیں اس کا مرکزی ہدف بناتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ وائرسز کو یہ جینیاتی سبقت حاصل ہوتی ہے کہ وہ اپنی نقول بہت تیزی سے بناکر ایک سے دوسرے میزبان میں منتقل ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ تو یہ ایک سے دوسرے ، تیسرے اور چوتھے میں چھلانگ لگاتا ہے، جس نے اسے اب تک سب سے زیادہ مشکل وائرس بنادیا ہے۔

طبی جریدے جرنل سائنس میں شائع تحقیق ان نتائج کو تقویت پہنچاتی ہے جو وائرس کی اس قسم کے حوالے سے گزشتہ مہینوں میں سامنے آئے ہیں۔

امریکا کے لوس آلموس نیشنل لیبارٹری نے اپنی تحقیق میں پہلی بار ماہرین کی توجہ وائرس کی اس نئی قسم کی جانب مرکوز کرائی تھی جو بہت تیزی سے پھیل رہی تھی۔

اس نئی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ وائرس کی اس نئی قسم سے متاثر جانور وائرس کی اوریجنل قسم کے شکار جانوروں کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے بیماری کو صحت مند جانوروں میں منتقل کرتے ہیں۔

وسکنسن یونیورسٹی کے محققین نے 16 چوہوں کو لیا اور 8 کو 614 جی جبکہ دیگر کو اصل قسم سے متاثر کیا۔

ہر متاثرہ چوہے کو ایک صحت مند چوہے کے ساتھ ایک پنجرے میں الگ الگ حصے میں رکھا گیا، تاکہ وہ ایک دوسرے کو چھو نہ سکیں مگر اسی فضا میں سانس لیں۔

تجربے کے دوسرے دن 614 جی سے متاثر چوہوں کے ساتھ رہنے والے 8 میں سے 5 بیمار ہوگئے اور خود بھی وائرل ذرات خارج کرنے لگے۔

اس کے مقابلے میں اصل قسم سے متاثر چوہوں کے ساتھیوں میں سے کوئی بھی بیمار نہیں بلکہ ایسا ہونے میں مزید 2 دن لگے، جس سے ثابت ہوا کہ وائرس کی نئی قسم میں آنے والی تبدیلیوں سے وائرس کے پھیلاؤ کی رفتار بڑھی۔

پروفیسر رالف برائس اور ان کی ٹیم نے اس سوال کا جواب جاننے کی بھی کوشش کی کہ وائرس کی ساخت میں تبدیلیوں سے ویکسین اور دیگر طریقہ علاج پر اثرات تو مرتب نہیں ہوں گے۔

اس مقصد کے لیے انہوں نے نئی اور پرانی اقسام کے وائرسز کے باعث کووڈ 19 کا شکار ہوکر صحتیاب ہونے والے افراد کے خون میں موجود اینٹی باڈیز کو ٹیسٹ کیا۔

مگر انہوں نے دونوں گروپس میں وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز میں کوئی نمایاں فرق دریافت نہیں کیا، جو کہ اچھی خبر ہے کہ جینیاتی تبدیلی سے ویکسینز یا علاج پر منفی اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔

انہوں نے ایسی اینٹی باڈیز کو بھی ٹیسٹ کیا جو وائرس کے علاج کے لیے تیار کی گئی ہیں اور بظاہر وہ ٹھیک کام کررہی تھیں۔

پروفیسر رالف نے بتایا کہ اس وقت تیار ہونے والی سب ویکسینز وائرس کی اصل قسم پر مبنی ہیں، تو یہ اچھی خبر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ طریقہ علاج اور روک تھام کی کوششیں بھی بظاہر وائرس میں اس تبدیلی سے کچھ زیادہ متاثر نہیں ہوئیں۔

کورونا وائرسز بطور گروپ ایک بہت زیادہ مستحکم قسم کے وائرسز ہیں، ان کا ایک خصوصی مالیکیول ہوتا ہے جسے پروف ریڈر کہا جاتا ہے، جو وائرس کی نقول کو درست طریقے سے بنانے کو یقینی بناتا ہے۔

مگر اس مالیکیول کی وجہ سے نئے کورونا وائرس کی نئی اقسام کا ابھرنا اس پر تحقیق کرنے والے سائنسدانوں کے لیے حیرت کا باعث بنا ہوا ہے۔

اس حوالے سے پروفیسر رالف اور دیگر سائنسدان ڈنمارک اور نیدرلینڈ میں آبی نیولے یا منک میں وائرس کی نئی اقسام کے ابھرنے کا باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہیں۔

پروفیسر رالف کا کہنا تھا کہ اس کی تصدیق کے لیے تحقیق کی ضرورت ہے مگر ابتدائی نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ وائرس نے بظاہر خود کو اس طرح بدلا جس سے وہ منک کو زیادہ موثر طریقے سے متاثر کرنے میں کامیاب ہوگیا، جبکہ اس دوران انسانوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت کو بھی برقرار رکھا۔

انہوں نے بتایا کہ جب وائرس اس طرح کے ارتقائی مرحلے سے گزرے جو اسے جانوروں کی کسی نسل میں گردش کرنے کی صلاحیت دے، تو اس وائرس کا خاتمہ بہت مشکل ہوجاتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں