ایل این جی ریفرنس میں شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسمعٰیل پر فرد جرم عائد

اپ ڈیٹ 16 نومبر 2020
ایل این جی ریفرنس میں شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل پر فرد جرم عائد کردی گئی— فائل فوٹو: اے ایف پی
ایل این جی ریفرنس میں شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل پر فرد جرم عائد کردی گئی— فائل فوٹو: اے ایف پی

ری گیسیفائڈ لیکوئیفائیڈ نیچرل گیس (ایل این جی) ریفرنس میں احتساب عدالت نے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمعٰیل پر فرد جرم عائد کردی ہے۔

پیر کو احتساب عدالت میں ایل این جی ریفرنس کیس میں جج اعظم خان نے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی پر فرد جرم عائد کردی لیکن شاہد خاقان عباسی نے صحت جرم سے انکار کیا۔

مزید پڑھیں: شاہد خاقان کے خلاف ایل این جی ریفرنس دو ہفتے میں دائر کیا جائے گا، نیب

احتساب عدالت نے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمعٰیل اور سابق ایم ڈی پی ایس او شیخ عمران الحق پر بھی ایل این جی ریفرنس میں فرد جرم عائد کی لیکن ملزمان نے صحت جرم سے انکار کردیا۔

شاہد خاقان عباسی کو فرد جرم عائد ہونے کے بعد کورٹ روم سے جانے کی اجازت دی دے گئی۔

اس کے علاوہ ملزمان آغا جان اختر اور عظمیٰ عادل پر فرد جرم عائد کی گئی اور انہوں نے بھی صحت جرم سے انکار کردیا جبکہ ملزمان حسین داؤد اور عبدالصمد داؤد پر وڈیو لنک کے ذریعے فرد جرم عائد کی گئی۔

ان دونوں کی جانب سے علی ظفر ایڈووکیٹ احتساب عدالت میں موجود تھے اور ان دونوں نے بھی صحت جرم سے انکار کردیا۔

پانچ ملزمان پر وڈیو لنک کے ذریعے فرد جرم عائد کی گئی اور تمام ملزمان کے انگوٹھے کے نشانات اور دستخط کے ساتھ شناختی کارڈ نمبرز لینے کی ہدایات کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: اوگرا کی غلطی سے آر ایل این جی صارفین کو 350 ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑے گا

اس کے علاوہ شاہد خاقان عباسی کے بھائی عبداللہ خاقان عباسی پر کووڈ-19 کے باعث گھر پر عدالتی اسٹاف کے ذریعے فرد جرم عائد کی گئی اور انہوں نے بھی صحت جرم سے انکار کردیا۔

احتساب عدالت کے جج نے کہا کہ جن ملزمان پر فرد جرم عائد ہو گئی ہے وہ جا سکتے ہیں، صرف ایک ملزم عامر نسیم کا انتظار کر رہے ہیں، اس کی آمد پر فرد جرم عائد ہو گی۔

فرد جرم عائد کیے جانے کے بعد احتساب عدالت کے باہر شاہد خاقان عباسی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایل این جی ریفرنس میں استغاثہ سے 19 نومبر کو شہادتیں طلب کی تھیں، ایل این جی کا نام آتا ہے لیکن ایل این جی کا کوئی واسطہ نہیں۔

انہوں نے کہا کہ جو چارج بنایا گیا ہے وہ بے بنیاد ہے اور 26 صفحات پر 64 الزامات لگائے گئے ہیں۔

شاہد خاقان نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ تماشے لگانے چھوڑیں گے تو ملک چلے گا، ریفرنس میں 12 ملزمان ہیں، 2 اوگرا کے چیئرمین ہیں، سوئی سدرن کے عہدے داران بھی شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: اوگرا نے پیٹرولیم بحران کا ذمہ دار 6 آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو ٹھہرادیا

انہوں نے کہا کہ اس چارج شیٹ میں کوئی کرپشن کا الزام نہیں ہے، یہ بدنصیبی ہے، میں نے کہاں کہا دیگر 11 ملزمان کو شامل نہ کیا جائے، میری گزارش ہے کہ عدالت میں ٹی وی کیمرے لگائے جائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم پبلک ہولڈر ہیں تاکہ ساری عوام دیکھے کہ کیا الزامات ہیں، ہم ایک ایک شک عوام کے سامنے رکھیں گے تاکہ عوام کو پتا چلے۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ہماری حکومت آتی ہے تو نیب کو ختم کر کے قانون کے مطابق چیئرمین نیب کے خلاف کارروائی کریں گے۔

ایل این جی کیس

واضح رہے کہ شاہد خاقان عباسی کو 18 جولائی کو قومی احتساب بیورو (نیب) نے مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کیس میں گرفتار کیا تھا، اس کے علاوہ 7 اگست کو ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست مسترد ہونے پر مفتاح اسمٰعیل کو عدالت سے گرفتار کیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں پر الزام ہے کہ انہوں نے اس وقت قوائد کے خلاف ایل این جی ٹرمینل کے لیے 15 سال کا ٹھیکہ دیا، یہ ٹھیکہ اس وقت دیا گیا تھا جب سابق وزیراعظم نواز شریف کے دور حکومت میں شاہد خاقان عباسی وزیر پیٹرولیم تھے۔

نیب کی جانب سے اس کیس کو 2016 میں بند کردیا گیا تھا لیکن بعد ازاں 2018 میں اسے دوبارہ کھولا گیا۔

یاد رہے کہ نیب انکوائری میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ (ایس ایس جی سی ایل) اور انٹر اسٹیٹ گیس سسٹم کی انتظامیہ نے غیر شفاف طریقے سے ایم/ایس اینگرو کو کراچی پورٹ پر ایل این جی ٹرمینل کا کامیاب بولی دہندہ قرار دیا تھا۔

اس کے ساتھ ایس ایس جی سی ایل نے اینگرو کی ایک ذیلی کمپنی کو روزانہ کی مقررہ قیمت پر ایل این جی کی ریگیسفائینگ کے 15 ٹھیکے تفویض کیے تھے۔

نہ صرف شاہد خاقان عباسی بلکہ سابق وزیر اعظم نواز شریف پر بھی اپنی مرضی کی 15 مختلف کمپنیوں کو ایل این جی ٹرمینل کا ٹھیکہ دے کر اختیارات کا غلط استعمال کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے خلاف نیب تحقیقات اگلے مرحلے میں داخل

2016 میں مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں نیب کراچی میں منعقدہ ریجنل بورڈ کے اجلاس میں شاہد خاقان عباسی کے خلاف انکوائری بند کردی گئی تھی۔

رواں برس 2 جنوری کو ای بی ایم نے اس وقت شاہد خاقان عباسی کے خلاف 2 انکوائریز کی منظوری دی تھی، جب وہ سابق وزیر پیٹرولیم اور قدرتی وسائل تھے۔

ان انکوائریز میں سے ایک ایل این جی کی درآمدات میں بے ضابطگیوں میں ان کی مبینہ شمولیت جبکہ دوسری نعیم الدین خان کو بینک آف پنجاب کا صدر مقرر کرنے سے متعلق تھی۔

تاہم شاہد خاقان عباسی کا موقف ہے کہ انہوں نے ایل این جی کی درآمد کے لیے دیے گئے ٹھیکے میں کوئی بے ضابطگی نہیں کی اور وہ ہر فورم پر اپنی بے گناہی ثابت کرسکتے ہیں اور یہ کہ 2013 میں ایل این جی کی برآمدات وقت کی اہم ضرورت تھی۔

مزید پڑھیں: ایل این جی کے ’غیر شفاف‘ ٹھیکوں پر نظرثانی کرنے کا فیصلہ

اس سلسلے میں رواں برس مارچ میں سابق وزیر اعظم ایل این جی کیس میں نیب کے سامنے پیش ہوئے تھے، جس کے بعد احتساب کے ادارے نے ان پر سفری پابندی لگانے کی تجویز دی تھی۔

جس کے بعد اپریل میں حکومت نے 36 ارب 69 کروڑ 90 لاکھ روپے مالیت کے ایل این جی کیس میں شاہد خاقان عباسی اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل سمیت 5 افراد کے بیرونِ ملک سفر کرنے پر پابندی عائد کی تھی۔

بعدازاں سابق وزیراعظم جون میں بھی تفتیش کے لیے نیب میں پیش ہوئے تھے تاہم نیب نے شاہد خاقان عباسی کو ان کے خلاف جاری تفتیش کے پیشِ نظر ایک مرتبہ پھر بیرون ملک جانے سے روکنے کے لیے وزارت داخلہ کو خط لکھا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں