سپریم کورٹ: آئی جی سندھ کے ‘اغوا’ کے خلاف دائر درخواست کی واپسی چیلنج

اپ ڈیٹ 20 نومبر 2020
عدالت عظمیٰ وزارت داخلہ اور دفاع کے ساتھ ساتھ پاکستان رینجرز کو سندھ آئی جی پی کے دائرہ اختیار میں مداخلت سے روکے، درخواست - فائل فوٹو:ڈان نیوز
عدالت عظمیٰ وزارت داخلہ اور دفاع کے ساتھ ساتھ پاکستان رینجرز کو سندھ آئی جی پی کے دائرہ اختیار میں مداخلت سے روکے، درخواست - فائل فوٹو:ڈان نیوز

اسلام آباد: عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والے افراد بشمول سینیئر صحافیوں اور انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے سابق چیئرمین آئی اے رحمٰن نے عدالت عظمیٰ کے 29 اکتوبر کو ان کی سندھ پولیس چیف کے مبینہ اغوا اور نظربندی کے خلاف درخواست مسترد کرنے کے فیصلے کو چیلنج کردیا۔

درخواست میں سپریم کورٹ کا اعلامیہ طلب کرنے کی استدعا کی گئی جس میں کہا گیا تھا کہ 19 اکتوبر کو سندھ کے انسپکٹر جنرل کی نظربندی کے ساتھ ساتھ فوجداری تحقیقات میں غیر قانونی مداخلت نے بنیادی حقوق کی سنگین پامالی کی ہے اور صوبائی خودمختاری پر سوالیہ نشان چھوڑا ہے۔

کرامت علی، ناظم فدا حسین، محمد جبران ناصر، مہناز رحمٰن، سلیمہ ہاشمی، زہرہ بانو، محمد تحسین، ناصر عزیز، فرحت پروین، فہیم زمان خان اور انیس ہارون نے سینئر وکیل فیصل صدیقی کی جانب سے دائر درخواست میں استدعا کی کہ عدالت عظمیٰ وزارت داخلہ اور دفاع کے ساتھ ساتھ پاکستان رینجرز کو سندھ آئی جی پی کے دائرہ اختیار اور معاملات میں مداخلت سے روکنے کے لیے پابندی عائد کرے۔

تازہ ترین اپیل میں سپریم کورٹ سے درخواست کی گئی کہ وہ 29 اکتوبر کو رجسٹرار آفس کے انتظامی حکم کو معطل کر کے اصل درخواست کو برقرار رکھے۔

سپریم کورٹ رولز 1980 کے رول 7، آرڈر 25 کے تحت دائر کی گئی اپیل میں دعوٰی کیا گیا ہے کہ رجسٹرار آفس صرف عدالت کو کسی بھی اپیل، درخواست یا درخواست پر سماعت کے لیے ضروری انتظامی تقاضوں سے متعلق مشاہدات پر اعتراض اٹھا سکتا ہے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ میں آئی جی سندھ کے ’اغوا‘ کی تحقیقات کیلئے درخواست دائر

اپنے انتظامی حکم نامے میں رجسٹرار آفس نے کہا تھا کہ درخواست گزاروں نے 'انفرادی شکایت' کے ازالے کے لیے آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت سپریم کورٹ کے غیر معمولی دائرہ اختیار سے استدعا کی جو 1998 کے فیصلے کی شرائط میں جائز نہیں۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ درخواست گزاروں نے اسی ریلیف کے لیے قانون کے تحت ان کو دستیاب کسی اور مناسب فورم سے رجوع نہیں کیا تھا اور ایسا نہ کرنے کا کوئی جواز بھی فراہم نہیں کیا۔

اس کے علاوہ سپریم کورٹ کے دفتر کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت عدالت عظمیٰ کے غیر معمولی دائرہ اختیار کو استعمال کرنے والی ضروریات کو پورا نہیں کیا گیا جبکہ درخواست کی زبان مبہم ہے کیونکہ اس کے مندرجات ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے نہیں ہیں۔

اس کے جواب میں اپیل میں دلیل دی گئی کہ درخواست میں عوامی اہمیت کا سنگین سوال شامل ہے کیوں کہ کسی صوبے کے آئی جی پی کے اغوا اور نظربند ہونے کے ساتھ ہی آرٹیکل 9 کے تحت زندگی اور آزادی کا حق، آرٹیکل 14 کے تحت وقار کا حق اور آرٹیکل 10 اے کے تحت پاکستان میں بسنے والے تمام شہریوں کے بنیادی حقوق کو نشانہ بنایا گیا اور اس سے بنیادی حقوق کی ضمانت ناقابل عمل ہوگئی ہے۔

اس میں کہا گیا کہ آئین میں شامل بنیادی حقوق کے ساتھ ساتھ امن وامان برقرار رکھنے کے لیے ریاست کا اہم کردار تعصب کا شکار ہوگیا جہاں پولیس کی خود مختاری کو ان کے سربراہ کے اغوا اور نظربند ہونے کی وجہ سے غیر تعصب کا سامنا کرنا پڑا ہے جس کی وجہ سے ریاست کی بنیادیں اس غیر قانونی اور ناجائز فعل سے لرز گئیں۔

آئی جی سندھ کا مبینہ اغوا

یاد رہے کہ 18 اکتوبر کو کراچی میں اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے منعقدہ اجلاس میں شرکت کے لیے آئے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کو مزار قائد میں نعرے بازی کرنے پر علی الصبح ہوٹل سے گرفتار کیا گیا تھا۔

گرفتاری کے کچھ دیر بعد سوشل میڈیا پر سابق گورنر سندھ محمد زبیر سے منسوب ایک آڈیو کلپ وائرل ہوا تھا جس میں آئی جی سندھ کے مبینہ اغوا سے متعلق بات کی گئی تھی۔

بعدازاں ایک نیوز کانفرنس میں بلاول بھٹو نے کہا تھا کہ 'افسران سوال پوچھ رہے ہیں کہ وہ 2 لوگ کون تھے جو آئی جی سندھ کے گھر میں داخل ہوئے اور صبح 4 بجے انہیں کہاں لے کر گئے تھے'۔

یہ بھی پڑھیں: آئی جی سندھ نے چھٹیوں پر جانے کا فیصلہ مؤخر کردیا

اسی معاملے پر صوبائی پولیس کے متعدد اے آئی جیز، ڈی آئی جیز اور ایس ایس پیز نے بھی انسپکٹر جنرل آئی جی) کو چھٹیوں کی درخواستیں جمع کرا دی تھیں۔

تمام اعلیٰ افسران کی جانب سے درخواستوں میں کہا گیا تھا کہ کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف حالیہ مقدمے کے اندراج کے معاملے میں کام میں بے جا مداخلت ہوئی اور پولیس کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا، جس سے پولیس افسران و ملازمین دل برداشتہ اور افسردہ ہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ دباؤ کے اس ماحول میں پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی مشکل ہے اور اس دباؤ سے نکلنے کے لیے رخصت درکار ہے۔

بعدازاں بلاول بھٹو کی اپیل پر چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے کور کمانڈر کو اس کی تحقیقات کی ہدایت کی تھی جس پر پولیس افسران نے چھٹیوں کی درخواستیں مؤخر کردی تھیں۔

دوسری جانب سندھ حکومت کی جانب سے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے وزرا پر مشتمل کمیٹی بنائی گئی ہے جو 30 روز میں اپنی رپورٹ جمع کروائے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں