کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے پاکستان بھر میں فیس ماسک کا استعمال لازمی قرار دیا جاچکا ہے، جبکہ متعدد ممالک بھی ایسا کیا جارہا ہے۔

مگر بیشتر افراد فیس ماسک کو پہننا پسند نہیں کرتے، جس کا نتجہ کووڈ 19 کے کیسز کی شرح میں اضافے کی شکل میں نکلتا ہے۔

طبی ماہرین لگ بھگ متفہ طور پر ہر ایک کے لیے ماسک استعمال کرنے کی پابندی کی حمایت کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو وائرس سے تحفظ مل سکے اور وبا کی رفتار سست کی جاسکے۔

امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن (سی ڈی سی) کے کووڈ 19 ریسپانس پروگرام کے چیف میڈیکل آفیسر جان بروکس کے مطابق 'جتنے زیادہ لوگ ماسک استعمال کریں گے، اتنا ہی برادری کو تحفظ ملے گا اور ذاتی طور پر بھی فائدہ ہوگا، یہ ایک اجتماعی مدافعیت جیسا اثر ہے'۔

ڈاکٹر جان بروکس نے ہی حال ہی میں سی ڈی سی کی فیس ماسک پہننے کے فوائد کی گائیڈلائنز کو اپ ڈیٹ کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ 15 فیصد افراد بھی فیس ماسک پہن لیں تو لاک ڈاؤنز سے بچا جاسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا 'اگر اس سے لاک ڈاؤن اور کاروباری بندش روکنے میں مدد نہ بھی ملے، تو بھی اس سے وبا کی رفتار کو سست کیا جاسکتا ہے'۔

اگست میں امریکا کے نیشنل اکیڈمیز آف سائنسز، انجنیئرنگ اینڈ میڈیسین میں ایک ورکشاپ کا انعقاد ہوا تھا جس میں ایسے ذرائع پر غور کیا گیا تھا جو وائرس کے ہوا کے ذریعے پھیلاؤ کو روک سکیں۔

اس ورکشاپ کا انعقاد کرنے والے ڈاکٹر والکنس نے بتایا 'فیس ماسک اس حوالے سے انتہائی اہمیت رکھتے ہیں، یہی وہ نتیجہ ہے جو سائنسدانوں نے نکالا'۔

کونسے ماسک تحفظ فراہم کرسکتے ہیں؟

ماسک کی اصطلاح ہر اس چیز کے لیے استعمال ہوتی ہے جو چہرے کو ڈھانپنے کے لیے استعمال ہوسکے مگر اس کی افادیت کا انحصار اس کی قسم پر ہوتا ہے۔

سب سے بہترین این 95 ماسک ہے اور نام سے ہی ظاہر ہے کہ اس قسم کے ماسک 95 فیصد مضر ذرات سے تحفظ فراہم کرتے ہیں، جبکہ سرجیکل ماسک بھی اس طرح کے ذرات کو فلٹر کرنے کے لیے بہت موثر ہوتے ہیں۔

مگر ڈاکٹر جان بروکس کا کہنا ہے کہ بہترین اقسام والے ماسک کی ضرورت طبی عملے کو ہوتی ہے کیونکہ وہ ہر وقت متاثرہ افراد کے قریب رہتے ہیں، جس سے وہ کورونا وائرس کے خطرے کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ دوسری جانب عام افراد کو وائرس کا سامنا اتنا نہیں ہوتا اور وہ اچھے کپڑے کے ماسک سے بھی وائرس سے تحفظ حاصل کرسکتے ہیں، ایسے کپڑے کے ماسک زیادہ بہتر ہوتے ہیں جن میں متعدد تہیں ہوں تاکہ وہ وائرل ذرات کو اپنے اندر پھانس لیں، درحقیقت جتنی تہیں ہوں گی، اتنا ہی تحفظ ملے گا بلکہ کچھ حالات میں تو وہ سرجیکل ماسکس جتنے ہی موثر ثابت ہوسکتے ہیں۔

کپڑے کے ماسک پائیدار اور متعدد بار استعمال کرسکتے ہیں جبکہ بار بار دھونے سے بھی ان کی افادیت میں کمی نہیں آتی، اس کے مقابلے میں این 95 اور سرجیکل ماسک عموماً ایک بار ہی استعمال کیے جاسکتے ہیں۔

ماسکس متاثرہ افراد کو وائرس پھیلانے سے روکتے ہیں

یہ بات طے شدہ ہے کہ این 95 اور سرجیکل ماسکس وائرس کی روک تھام کرکے دیگر کو بیمار ہونے سے بچاتے ہیں اور ڈاکٹر میں روایتی طور پر سرجیکل ماسکس اسی لیے پہنتے ہیں تاکہ مریضوں کو تحفظ مل سکے۔

مگر ایسے شواہد مسلسل سامنے آرہے ہیں جن سے عندیہ ملتا ہے کہ کپڑے کے ماسک بھی پہننے والے کے منہ یا ناک سے خارج ہونے والے وائرل ذرات کو روک سکتے ہیں۔

یہ درہافت اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ کورونا وائرس کے بغیر علامات والے مریض بھی اس وائرس کو آگے دیگر تک منتقل کرسکتے ہیں اور سی ڈی سی کے مطابق 50 فیصد سے زیادہ کیسز کی وجہ بغیر علامات والے مریض ہی ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر والکنس نے بتایا کہ تحقیقی رپورٹس یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ فیس ماسک کا استعمال جن ممالک میں زیادہ ہوا، انہوں نے کامیابی سے وائرس کے پھیلاؤ کو کنٹرول کیا۔

ماسکس پہننے والے کو بھی تحفظ فراہم کرتے ہیں

ہر قسم کے ماسک پہننے والے کو بھی دیگر افراد کے ناک یا منہ سے خارج ہونے والے وائرل ذرات سے بی تحفظ فراہم کرتے ہیں، تاہم یہ تحفظ کس حد تک ہوتا ہے، یہ ابھی واضح نہیں۔

بالٹی مور کی سابق ہیلتھ کمشنر ڈاکٹر لینا وین نے بتایا 'کپڑے کے ماسک پہننے والے کو ملنے والا تحفظ سوفیصد نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ ہر ایک کا ماسک پہننا اہمیت رکھتا ہے، کیونکہ ضرورت اس بات ہے کہ وہ لوگ بی ماسک پہنیں جو وائرس سے متاثر ہوں'۔

این 95 ماسک اس حوالے سے سب سے زیادہ موثر سمجھتے جاتے ہیں مگر کپڑے کے ماسک کے بارے میں شواہد ابھی سامنے آرہے ہیں۔

ورجینیا ٹیک کی وائرسز کی ہوا سے منتقلی کی ماہر لینسے مرر نے بتایا 'ابھی ماسک پہننے والے کو ملنے والے تحفظ کے حوالے سے بہت زیادہ مضبوط تحقیقی رپورٹس نہیں ہوئیں، تاہم بیشتر محققین کا تصور ہے کہ کپڑے کے ماسک کسی حد تک تحفظ ضرور فراہم کرتے ہیں'۔

اس حوالے سے کچھ تحقیقی کام لیبارٹری میں ہوا یا پتلوں پر ککیا گیا، جس میں حقیقی صورتحال کو کور نہیں کیا گیا، جہاں لوگ کبھی ماسک نہیں پہنتے یا درست طریقے سے استعمال نہیں کرتے۔

مگر ڈاکٹر جان بروکس نے بتایا کہ اس حوالے سے ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 4 تہہ والا اونی ماسک وائرس کی ٹرانسمیشن کو موثر طریقے سے روکتا ہے۔

ماسک پر تحقیق ادویات یا ویکسینز سے مشکل

کپڑے کے فیس ماسک پر ہونے والی بیشتر تحقیقات مشاہداتی ہیں اور ان مٰں دیکھا گیا کہ وہ برادری کی سطح پر وائرس کی منتقلی کو روک سکتے ہیں یا نہیں۔

سی ڈی سی کی حالیہ گائیڈلائنز میں ایسی کئی تحقیقی رپورٹس کا حوالہ دیا گیا جن میں بتایا گیا کہ فیس ماسک کا استعمال لازمی قرار دینا وبا کی روک تھام میں مددگار ہے۔

ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کورونا وائرس کے شکار بغیر علامات والے 2 ہیئر اسٹائلسٹ نے یہ وائرس اپنے 67 ماسک پہننے والے کسی صارف میں منتقل نہیں کیا۔

ایک اور تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ چہرے کو ڈھانپنے سے کووڈ 19 کا خطرہ 70 فیصد تک کم کیا جاسکتا ہے۔

ماہرین کے مطابق پہننے والے کے لیے ماسک کے فوائد کا تعین کرنا بہت مشکل ہے۔

حال ہی میں ڈنمارک کی ایک تحقیق میں کنٹرول کلینیکل ٹرائل کے دوران ماسک پہننے والے کے تحفظ کی جانچچ پڑتال کی گئی۔

محققین نے کسی قسم کا نمایاں اثر دریافت نہیں کیا مگر ماہرین کے مطابق یہ تحقیق بہت زیادہ محدود تھی، کیونکہ اس تحقیق میں ڈنمارک کی ایسی برادری کو شامل کیا گیا، جن میں وائرس کی منتقلی کی شرح بہت کم تھی اور وہاں فیس ماسک کا استعمال عام بھی نہیں تھا۔

ماسک کے حوالے سے سفارشات میں وقت کے ساتھ تبدیلیاں

امریکا میں وبا کے آغاز پر فیس ماسک کے استعمال کو ضروری نہیں قرار دیا گیا تھا بلکہ علامات والے مریضوں پر زور دیا جاتا تھا کہ وہ ماسک کا استعمال کریں۔

اپریل میں سی ڈی سی نے فیس ماسک کے عام استعمال کی سفارشات جاری کیں جبکہ عالمی ادارہ صحت نے جولائی میں فیس ماسک پہننے کی سفارشات کی توثیق کی۔

ڈاکٹر وین کے مطابق یہ قدرتی ہے کہ کسی نامعلوم وائرس کے حوالے سے وقت کے ساتھ سفارشات میں نمایاں تبدیلیاں آئیں 'ہم اب اس وائرس کے بارے میں کافی کچھ جان چکے ہیں اور یرے خیال میں ہم تسلیم کرسکتے ہیں کہ آغاز میں ہم غلط تھے'۔

انہوں نے مزید کہا کہ گائیڈلائنز میں تبدیلیوں کو ایسی نشانی کے طور پر دیکھا جانا چاہیے کہ ہم تازہ ترین سائنسی انکشافات پر عمل کررہے ہیں۔

تنہا ماسک وائرس کو روکنے کے لیے کافی نہیں

ماہرین اس بات زور دیتے ہیں کہ فیس ماسک کو ایک ٹول کے طور پر استعمال کرنا چاہیے جو وبا کی رفتار سست کرسکتا ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ سمای دوری، ہوا کی نکاسی کے اچھے نظام اور ہاتھوں کی صفائی بی اہمیت رکھتے ہیں۔

ڈاکٹر مرر کے مطابق ان میں سے کوئی بھی بذات خود سوفیڈ موثر نہیں مگر جب ان کو اکٹھا کیا جائے تو ہم وائرس کے پھیلاؤ کے خطرے کو نمایاں حد تک کم کرسکتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں