سپریم کورٹ کی خیبرپختونخوا حکومت کو لوکل گورنمنٹ ایکٹ کی پاسداری کی ہدایت

اپ ڈیٹ 25 نومبر 2020
سپریم کورٹ نے خیبرپختونخوا میں مقامی حکومت کی عدم موجودگی کو قانون کی بےحرمتی قرار دیا— فائل فوٹو بشکریہ سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے خیبرپختونخوا میں مقامی حکومت کی عدم موجودگی کو قانون کی بےحرمتی قرار دیا— فائل فوٹو بشکریہ سپریم کورٹ

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے خیبرپختونخوا میں مقامی حکومت کی عدم موجودگی کو قانون کی بے حرمتی قرار دیتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا ہے کہ نہ ہی صوبے کے وزیر اعلیٰ اور نہ ہی ان کی کابینہ کے اراکین خیبر پختونخوا لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 اور آئین کی پاسداری کر رہے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عدالت عظمیٰ نے منگل کے روز ایک میونسپل کارپوریشن کے منتظم کی درخواست پر جاری کردہ چار صفحات پر مشتمل ایک حکم نامے میں قرار دیا کہ آئین اور قانون کی پاسداری کرنا 'اختیاری نہیں بلکہ واجب ہے'۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰٰ نے ریمارکس دیئے کیا کہ 'ایکٹ اور آئین کی اس سنگین خلاف ورزی کو ختم کیا جانا چاہیے اور اس ایکٹ اور آئین کی پاسداری کی جانی چاہیے۔

مزید پڑھیں: خیبرپختونخوا: بلدیاتی حکومتوں میں تنخواہوں کیلئے 71فیصد بجٹ

دوران سماعت عدالت نے کہا کہ 28 اگست 2019 کے بعد سے صوبہ خیبر پختونخوا کو منتخب عوامی نمائندوں سے محروم کیا ہوا ہے اور حکم نامے میں کہا گیا کہ اس آرڈر میں یہ بات شامل ہوگئی ہے کہ ’لوکل کونسل الیکشن‘ کے عنوان سے 47 سیکشنز پر مشتمل ایکٹ کے باب پنجم کو بے کار قرار دیا گیا ہے۔

سپریم کورٹ کے حکم میں کہا گیا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اراکین سمیت تمام آئینی عہدے دار اپنے دفاتر میں داخلے سے قبل حلف اٹھائیں، حکمنامے میں مزید وضاحت کی گئی کہ حلف ان سے آئین اور قانون کے تحت کام کرنے کا تقاضا کرتا ہے، یہ مشاہدہ کیا گیا کہ بدقسمتی سے نہ ہی خیبر پختونخوا کے وزیر اعلی اور نہ ہی صوبائی کابینہ کے اراکین ایکٹ اور آئین کی پاسداری کر رہے ہیں کیونکہ بلدیاتی انتخابات نہیں ہورہے تھے اور لوگوں کو جمہوریت سے محروم رکھا جارہا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے یہ بھی حکم دیا کہ فیصلے کی نقول چیف الیکشن کمشنر، الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اراکین، وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا اور صوبائی کابینہ کے ہر رکن کو بھی بھیجی جائے تاکہ وہ اس ایکٹ اور ان کے متعلقہ قانونی اور آئینی فرائض کی تعمیل کو یقینی بنائیں۔

یہ بھی پڑھیں: خیبر پختونخوا اسمبلی: بلدیاتی نظام کا بل منظور

عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل اور اٹارنی جنرل کو نوٹسز بھی جاری کیے تاکہ وہ اپنی متعلقہ حکومتوں کو مشورہ دیں کہ وہ قانون کی پابندی اور عوام کو اپنے مقامی حکومت کے نمائندوں کے انتخاب کے جمہوری حق سے محروم رکھنے سے باز رہیں۔

اس سے قبل سماعت کے دوران، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا عاطف علی خان نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا تھا کہ 11 فروری کی عدالتی ہدایات کی تعمیل میں مختلف ضلعی انتظامیہ، گاؤں اور محلے کی کونسلز، تحصیل/میونسپلٹی کے قابل منتقل اثاثوں کی تفصیلات کے علاوہ 479 صفحات پر مشتمل درخواست دائر کی گئی ہے۔

سپریم کورٹ کے حکم میں بتایا گیا ہے کہ عدالت نے دستاویزات طلب نہیں کیں لیکن چیف سیکریٹری کے ساتھ ساتھ سیکریٹری لوکل گورنمنٹ الیکشن اینڈ رورل ڈیولپمنٹ ڈپارٹمنٹ کو بھی ہدایت کی تھی کہ وہ متعلقہ حکام کو تحریری ہدایات جاری کریں تاکہ خیبر پختونخوا لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 کی تعمیل کو یقینی بنایا جا سکے۔

اس سے قبل سپریم کورٹ نے تمام متعلقہ محکموں کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کو عوامی املاک کے تحفظ کے لیے ہدایت جاری کرتے ہوئے حکم دیا تھا کہ 'صوبہ خیبر پختونخوا میں تمام سرکاری املاک کی تفصیلات تک آسانی سے رسائی کو یقینی بنایا جائے تاکہ لوگ ڈیجیٹل اور الیکٹرانک طریقے سے جائیدادوں کے بارے میں معلومات تک رسائی حاصل کرسکیں۔

یہ بھی پڑھیں: خیبر پختونخوا کابینہ میں ردوبدل، 4 وزرا کے قلمدان تبدیل

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مشاہدہ کیا کہ خیبر پختونخوا حکومت اپنے طرز عمل سے عوامی املاک کے تحفظ میں دلچسپی کا فقدان ظاہر کررہی ہے اور وہ عوامی املاک کو عوام کے سامنے منکشف نہیں کرنا چاہتی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کی جانب سے عدالت کو دی گئی یقین دہانی پر خالصتاً عمل کرتے ہوئے ہم صوبے کے چیف سیکریٹری اور سیکریٹری ایل جی ای آر ڈی کو حکم کی تعمیل کرنے کے لیے آخری موقع فراہم کرتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں