احد چیمہ کو 3 سال جیل میں رکھ کر نیب کو کیا ملا؟ سپریم کورٹ کا سوال

اپ ڈیٹ 26 نومبر 2020
سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت ہوئی—فائل فوٹو: عدالت عظمیٰ ویب سائٹ
سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت ہوئی—فائل فوٹو: عدالت عظمیٰ ویب سائٹ

سپریم کورٹ نے کرپشن کے ملزم کی ضمانت سے متعلق ایک کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ قومی احتساب بیورو (نیب) مقدمات میں ضمانتوں کی مخالفت صرف اصول کی بنیاد پر ہی کرے۔

ساتھ ہی عدالت نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ نیب کو سابق ڈی جی ایل ڈی اے احد چیمہ کو 3 سال تک جیل میں رکھ کر کیا ملا؟

عدالت عظمیٰ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے صوبہ سندھ کے شہر جیکب آباد کے ایک اسکول میں کرپشن سے متعلق کیس کے ملزم آزاد علی کی درخواست ضمانت پر سماعت کی۔

دوران سماعت ملزم کے وکیل راجا عامر عباس نے مؤقف اپنایا کہ ان کے موکل پر 34 لاکھ روپے کی کرپشن کا الزام ہے جبکہ اس رقم کو بطور ضمانت جمع کرواچکے ہیں۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: آشیانہ ہاؤسنگ کیس میں مرکزی ملزم احد چیمہ کی ضمانت منظور

عامر عباس کا کہنا تھا کہ اسی ریفرنس میں شامل دیگر ملزمان کی ضمانتیں منظور ہو چکی ہیں لیکن میرے موکل 19 اگست 2019 سے گرفتار ہے۔

اس پر نیب کے وکیل عمران الحق نے مؤقف اختیار کیا کہ ملزم کا مقدمہ دوسرے ملزمان سے منفرد ہے، اصل کرپشن 34 لاکھ روپے سے زیادہ کی ہے۔

نیب وکیل کا کہنا تھا کہ ملزمان نے اسکولوں میں تعمیراتی کام کیے بغیر رقوم وصول کرلیں۔

اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ملزمان کو حراست میں رکھنے کی مخصوص شرائط ہوسکتی ہیں، ساتھ ہی یہ پوچھا کہ کیا اس کیس میں نیب کو ڈر ہے کہ ملزم بھاگ جائے گا؟

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ گزشتہ روز جسٹس مشیر عالم کی عدالت میں ایک ملزم کی ضمانت دی گئی، کتنے عرصے بعد اس جنٹل مین کو ضمانت ملی؟ جس پر نیب وکیل نے کہا کہ ملزم احد چیمہ کو 2 سال 9 ماہ بعد کل سپریم کورٹ سے ضمانت ملی۔

وکیل کی بات پر جسٹس عمر عطا بندیال نے پوچھا کہ نیب کو احد چیمہ کو 3 سال جیل میں رکھنے سے کیا ملا؟ ضمانت کی مخالفت صرف اسی صورت ہو سکتی ہے جب ملزم سے معاشرے کو نقصان کا اندیشہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ اگر نیب کے ملزمان کے حوالے سے خدشات ہیں تو عدالت اس پر حکم جاری کرسکتی ہے، (تاہم) نیب مقدمات میں ضمانتوں کی مخالفت صرف اصول کی بنیاد پر ہی کرے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ملزمان کی گرفتاری کے حوالے سے ایک مقدمے میں پہلے ہی نیب سے معاونت کا کہہ چکے ہیں۔

اس موقع پر جسٹس مظاہر علی اکبر نے کہا کہ ضمانت دینے سے ملزم بری نہیں ہوتا، ملزم ٹرائل کا سامنے کرکے ہی بری ہو سکتا ہے، جس پر نیب کے وکیل کا کہنا تھا کہ صرف رقم جمع کروانے پر ملزمان کا جرم ختم نہیں ہوجاتا۔

بعد ازاں عدالت نے مذکورہ کیس میں ملزم کی ضمانت منظور کرلی، ساتھ ہی جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ اس کیس میں 4 سے 5 بنیادوں پر ملزم کو ضمانت دے رہے ہیں۔

عدالت نے ملزم آزاد علی کو 5، 5 لاکھ روپے کے 2 ضمانتی مچلکے جمع کرانے کی ہدایت کردی۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے گزشتہ روز آشیانہ اقبال ہاؤسنگ اسکیم اسکینڈل میں مرکزی ملزم احد چیمہ اور شریک ملزم شاہد شفیق کی ضمانت منظور کرلی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: بدعنوانی کے مقدمات میں ضمانتیں قانونی اختتام نہیں، چیئرمین نیب

جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں بینچ نے ملزمان کو اس وقت ضمانت بعد از گرفتاری دی تھی جب عدالت کو یہ آگاہ کیا گیا تھا کہ ملزمان 2 سال 9 ماہ سے جیل میں ہیں۔

ان کے خلاف دسمبر 2018 میں باقاعدہ ریفرنس دائر کیا گیا تھا جبکہ فروری 2019 میں ان پر فرد جرم عائد ہوئی تھی۔

واضح رہے کہ قومی احتساب بیورو نے آشیانہ اقبال ہاؤسنگ اسکینڈل کیس میں تعلق پر احد چیمہ کو گرفتار کیا تھا اور ان پر ملک کے اندر اور باہر جائیداد اور اربوں روپے کے اثاثے رکھنے کا الزام تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں