گوگل کا ڈوڈل کے ذریعے بانو قُدسیہ کو خراج عقیدت

28 نومبر 2020
بانو قدسیہ 4 اکتوبر 2017 کو فانی دنیا سے رخصت ہوئیں—فائل فوٹو: ڈان
بانو قدسیہ 4 اکتوبر 2017 کو فانی دنیا سے رخصت ہوئیں—فائل فوٹو: ڈان

انٹرنیٹ کی سب سے بڑی سرچ انجن گوگل کی جانب سے پاکستان کی شہرہ آفاق ناول نگار، ڈراما نویس و افسانہ نگار بانو قُدسیہ کو ان کی 92 ویں سالگرہ پر انہیں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔

گوگل ماضی میں بھی پاکستان کے کئی ادیبوں، شاعروں، لکھاریوں، کھلاڑیوں، سیاستدانوں اور سماجی شخصیات کو ڈوڈل کے ذریعے خراج عقیدت پیش کرتا رہا ہے۔

گوگل ہر ملک میں وہاں کی اہم شخصیات کو ان کی سالگرہ یا برسی کے موقع پر ڈوڈل کے ذریعے خراج عقیدت پیش کرتا رہتا ہے۔

گوگل نے بانو قُدسیہ کا ڈوڈل 28 نومبر کا آغاز ہوتے ہی جاری کردیا تھا، جس میں شہرہ آفاق ناول نگار و ڈراما ساز کو ان کے روایتی لباس و انداز میں دکھایا گیا ہے۔

28 نومبر کا آغاز ہوتے ہی گوگل نے ڈوڈل جاری کیا—اسکرین شاٹ
28 نومبر کا آغاز ہوتے ہی گوگل نے ڈوڈل جاری کیا—اسکرین شاٹ

بانو قُدسیہ متحدہ ہندوستان میں 28 نومبر 1928 کو پنجاب کے شہر فیروزپور میں پیدا ہوئی تھیں جو تقسیم ہند کے بعد بھارت کے حصے میں آیا۔

بانو قُدسیہ تقسیم ہند کے بعد اپنے اہل خانہ کے ہمراہ پاکستان منتقل ہوئی تھیں اور انہوں نے زندگی کے باقی ایام پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں گزارے۔

اردو ادب کو معروف ناول اور افسانے دینے والی بانو قُدسیہ نے کم عمری میں ہی لکھنا شروع کردیا تھا اور انہوں نے معروف ادیب، ناول نویس و افسانہ نگار اشفاق احمد سے جوانی میں ہی شادی کرلی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: بانو قدسیہ کی یاد میں

بانو قُدسیہ اور اشفاق احمد کی جوڑی کا شمار ادبی دنیا کی معتبر ترین جوڑیوں میں ہوتا تھا اور دونوں نے اردو ادب کو لازوال کتابیں دیں۔

بانو قُدسیہ نے مجموعی طور پر 30 سے زائد ناول اردو ادب کو دیے جن میں راجہ گدھ، ایک دن شہرِ بے مثال، توجہ کی طالب، حوّا کے نام، مردِ ابریشم، موم کی گلیاں، تماثیل، آتش زیرپاء سمیت دیگر شامل ہیں۔

انہیں لوگ پیار و ادب سے بانو آپا بھی بلاتے تھے اور خیال کیا جاتا ہے کہ ان کی ہر تصنیف عورت کے گرد نہیں بلکہ عورت کی محبت کے گرد گھومتی ہے۔

بانو قدسیہ کی تخلیقات آج بھی شوق سے پڑھی جاتی ہیں—فائل فوٹو: فیس بک
بانو قدسیہ کی تخلیقات آج بھی شوق سے پڑھی جاتی ہیں—فائل فوٹو: فیس بک

بانو قدسیہ نے پاکستان ٹیلی وژن (پی ٹی وی) کے لیے ڈرامے بھی لکھے جب کہ انہوں نے نان فکشن تصانیف بھی تخلیق کیں۔

اگرچہ ان کے زیادہ تر ناول اردو ادب کے بہترین ناولوں میں شمار ہوتے ہیں، تاہم ان کے ناول راجہ گدھ نے سب سے زیادہ کامیابی بٹوری اور اس ناول کی کامیابی کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

مزید پڑھیں: بانو قُدسیہ: سرائے موجود ہے، داستان رخصت ہوئی

بانو قدسیہ کے اس شہرہ آفاق ناول کی مرکزی کردار’’سیمی شاہ‘‘ تھی، جس کا تعلق اشرافیہ سے تھا۔ ایک کردار آفتاب تھا، وہ بھی اعلیٰ طبقے سے تعلق رکھتا تھا، جس پر سیمی شاہ مر مٹی تھی۔ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا ایک کردارنعیم کا تھا، جو اپنی سوچوں کے ملبے تلے دفن تھا، پھر پروفیسر سہیل کا وہ کردار تھا جو ناول کے آغاز پر اپنی کلاس میں یونیورسٹی کے نوجوان لڑکے لڑکیوں سے فرد اورمعاشرے کے تعلق پر نفسیاتی پہلوؤں سے تجزیانہ گفتگو کرتے ہوئے قاری کے دل کو موہ لیتا ہے۔

اس طرح کے بے شمار کردار اور موضوعات اس ناول میں بکھرے ہوئے ہیں، جن کو پڑھتے ہوئے آپ کہیں گم ہوجائیں گے۔

بانو قدسیہ 4 اکتوبر 2017 کو اس دنیا سے رخصت ہوئیں، تاہم وہ اپنی تخلیقات کے ذریعے آج بھی مدحوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔

بانو قدسیہ اور اشفاق احمد نے اردو ادب کو کئی نایاب تخلیقات دیں—فائل فوٹو: ٹوئٹر
بانو قدسیہ اور اشفاق احمد نے اردو ادب کو کئی نایاب تخلیقات دیں—فائل فوٹو: ٹوئٹر

تبصرے (0) بند ہیں