پتوکی کے 10 ججز نے بار کی ’بدسلوکی‘ کے خلاف احتجاجاً کام روک دیا

05 دسمبر 2020
ججز کی جانب سے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج قصور کو ایک درخواست بھی لکھ دی گئی—فائل فوٹو: اے ایف پی
ججز کی جانب سے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج قصور کو ایک درخواست بھی لکھ دی گئی—فائل فوٹو: اے ایف پی

لاہور: تحصیل پتوکی میں تعینات تمام جوڈیشل افسران نے خاتون جج سمیت اپنے ساتھیوں کے ساتھ مقامی بار ایسوسی ایشن کے صدر کی جانب سے مبینہ طور پر بدتمیزی اور غیرمہذب طرز عمل اپنانے کے خلاف بطور احتجاج کام روک دیا اور 10 دن کی رخصت کے لیے درخواست دے دی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قصور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج کو 10 ججز کی جانب سے لکھی گئی چھٹی کی مشترکہ درخواست میں کہا گیا کہ تمام واقعہ سول ججز ماہ جبین اور خالد محمود وڑائچ کے کمرہ عدالت میں پیش آیا۔

اس حوالے سے ایک سول جج نے ڈان سے گفتگو کے دوران بتایا کہ ’ہم نے کام روکنے کا فیصلہ کیا کیونکہ حکام کی جانب سے بار لیڈر کی بدسلوکی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی‘۔

مزید پڑھیں: 'بداخلاق وکلا' کے خلاف کارروائی نہ ہونے پر جونیئر ججز مایوسی کا شکار

علاوہ ازیں اب تک انہیں یہ آگاہ کیا گیا کہ سیشن جج معاملے کو لاہور ہائیکورٹ کے رجسٹرار کے ساتھ اٹھائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ پتوکی کی عدالتوں میں موجود جوڈیشل افسران وکلا کے واقعات پر بہت مایوس اور اداس ہیں اور سب ڈویژن میں خدمات سے انکارکردیا ہے۔

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز ججز فرخ حسین، محمد اشفاق، طارق مسعود اور سول ججز خالد محمور وڑائچ، مہتاب حسین شاہ، ارم علی ملک، مجاہد کریم، شمروز افتخار، ماہ جبین اور اسما رشید کی دستخط شدہ مشترکہ درخواست میں کہا گیا کہ 2 دسمبر کو پتوکی تحصیل بار ایسوسی ایشن کے صدر مدثر نعیم بھٹی مبینہ طور پر شراب کے نشے میں سول جج ماہ جبین کے کمرہ عدالت میں داخل ہوئے اور انہیں گالیاں دینا شروع کردیں ساتھ ہی انہیں سنگین نتائج کی دھمکی بھی کی۔

درخواست میں کہا گیا کہ بعد ازاں بار کا صدر مبینہ طور پر سول جج خالد محمود وڑائچ کی عدالت میں داخل ہو اور نامناسب زبان کا استعمال کیا، مزید یہ کہ جو زبان مدثر بھٹی نے استعمال کی اسے اس درخواست میں لکھا نہیں جاسکتا۔

اس میں کہا گیا کہ بار کے کئی سینئر اراکین نے بھی واقعے کی فوٹیج دیکھی لیکن کسی نے بھی صرف لفظی مذمت کے علاوہ مدثر بھٹی کے خلاف کوئی باقاعدہ کارروائی نہیں کی۔

ججز کی جانب سے کہا گیا کہ یہاں اس بات کا ذکر کرنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ جوڈیشل افسران کی تذلیل کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ پتوکی میں کام کرنے والے جوڈیشل افسران کو ہر روز اسی طرح کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

مذکورہ ججز کی جانب سے 5 سے 15 دسمبر تک 10 روز کی چھٹی کی درخواست کی گئی۔

واضح رہے کہ حال ہی میں کچھ جوڈیشل افسران جن میں پنجاب میں کام کرنے والی کچھ خواتین بھی شامل تھیں انہوں نے وکلا کی بدسلوکی کے واقعات کے خلاف حکام کو شکایات دی تھی اور ان جرائم کے مرتکب افراد کے خلاف کارراوئی نہ ہونے کی نشاندہی کی تھی۔

گزشتہ ماہ ایڈیشنل سیشن اینڈ ڈسٹرکٹ جج فتح جنگ (اٹک) ڈاکٹر ساجدہ احمد نے چیف جسٹس پاکستان اور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کو ایک کھلا خط لکھا اور کہا تھا کہ یہ ان کے لیے بہتر ہوتا کہ وہ عدلیہ میں آنے کے بجائے اپنے گاؤں میں مویشی چلا لیتی جہاں ہر روز انہیں ’نام نہاد‘ وکلا کی جانب سے بدتمیزی اور حملوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: خاتون جج کا وکلا کی جانب سے ہراساں کیے جانے پر چیف جسٹس پاکستان کو خط

انہوں نے اپنے خط میں یہاں تک کہا تھا کہ اگر اسلام نے خودکشی سے منع نہیں کیا ہوتا تو سپریم کورٹ کی عمارت کے سامنے خود اپنی زندگی لے لیتی کیونکہ بطور جج انہیں اور ان کی ساتھیوں کو ہر روز ’ناختم ہونے والی گالیاں، ہراسانی اور بدتمیزی‘ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

خاتون جج نے افسوس کا اظہار کیا تھا کہ ڈسٹرکٹ ججز کی روزانہ ہونے والی اس تذلیل سے تحفظ کے لیے سینئرز نے کچھ نہیں کیا۔

علاوہ ازیں ایک سول جج سید جہانزیب بخاری بھی لاہور بار ایسوسی ایشن کے سیکریٹری ملک سلطان اور دیگر کی جانب سے جسمانی تشدد کے خلاف ان کی شکایت پر متعلقہ حکام کی جانب سے کارروائی نہ ہونے پر بطور احتجاج طویل چھٹیوں پر چلے گئے۔

دریں اثنا لاہور ہائیکورٹ کے رجسٹرار مشتاق احمد اوجلا نے پنجاب میں ڈسٹرکٹ اینڈ شیشنز ججز سے کہا تھا کہ وہ گزشتہ 2 سال کے دوران اس طرح کے واقعات کا ڈیٹا مرتب کریں اور اگر اس پر کوئی نتائج نکلے تو وہ بھی بیان کریں۔


یہ خبر 05 دسمبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں