کے الیکٹرک کو اضافی بجلی، گیس کی فراہمی کے قانونی تقاضے تعطل کا شکار

اپ ڈیٹ 05 دسمبر 2020
ایس ایس جی سی ایل جی ایس اے میں داخل ہونے سے قبل وفاقی حکومت کی طرف سے کسی طرح کی ضمانت چاہتی ہے۔ - فائل فوٹو:کے الیکٹرک
ایس ایس جی سی ایل جی ایس اے میں داخل ہونے سے قبل وفاقی حکومت کی طرف سے کسی طرح کی ضمانت چاہتی ہے۔ - فائل فوٹو:کے الیکٹرک

اسلام آباد: نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) اور سوئی سدرن گیس کمپنی (ایس ایس جی سی ایل) کے 253 ارب روپے سے زائد کی ادائیگیاں نہ ہونے پر تصفئی بی ہونے کی وجہ سے قومی نیٹ ورکس سے کے الیکٹرک کو اضافی بجلی اور گیس کی فراہمی کے قانونی انتظامات تعطل کا شکار ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق باخبر ذرائع نے بتایا کہ عوامی سیکٹر کی دونوں کمپنیوں - این ٹی ڈی سی اور ایس ایس جی سی ایل – نے واجبات کی منظوری تک کے الیکٹرک کے ساتھ بجلی کی خریداری کے معاہدے (پی پی اے) اور گیس کی فراہمی کے معاہدے (جی ایس اے) پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

مزید پڑھیں: کے الیکٹرک کے سرمایہ کاروں پر تحفظات ہیں، لگتا ہے ان کے تانے بانے ممبئی سے نکلیں گے، چیف جسٹس

واضح رہے کہ کابینہ کمیٹی برائے توانائی (سی سی او ای) کے رواں سال جون کے ایک فیصلے کے تحت نیشنل گرڈ سے بجلی کی فراہمی کو ایک ہزار 400 میگاواٹ تک بڑھانا تھا جبکہ کے ای کو تقریبا 150 ایم ایم ایف سی ڈی اضافی گیس کی فراہمی کی جانی تھی، تقریبا 200 ایم ایم ایف سی ڈی کی موجودہ گیس کی فراہمی کے لیے کے ای اور ایس ایس جی سی ایل کا معاہدہ اب تک نہیں ہوا ہے۔

ایس ایس جی سی ایل انتظامیہ اور بورڈ آف ڈائریکٹرز جی ایس اے میں داخلے سے قبل وفاقی حکومت کی طرف سے کسی طرح کی ضمانت یا 103 ارب کی کے ای سے ادائیگی کا منصوبہ بنانا چاہتے ہیں۔

کے ای اس رقم کا مقابلہ کررہی ہے اور دعویٰ کرتی ہے کہ ایس ایس جی سی ایل کو تقریبا 13 ارب روپے کی ادائیگی کرنی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: وفاق کا 'کے الیکٹرک' کا انتظامی کنٹرول سنبھالنے پر غور

این ٹی ڈی سی انتظامیہ بھی اضافی بجلی کی فراہمی کے لیے پی پی اے پر دستخط کرنے سے پہلے اپنے 150 ارب روپے کے واجبات کی ادائیگی کرانا چاہتی ہے۔

معلومات رکھنے والے ذرائع نے بتایا ہے کہ کے ای انتظامیہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے گزشتہ دنوں مختلف قانونی اور سیاسی حکام کے ساتھ مصروف رہی ہے تاہم کورونا پابندیوں کی وجہ سے چند اہم عہدیداروں کی عدم فراہمی کی وجہ سے کوششوں میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔

آئندہ ہفتے حکومت اور کے ای حکام کے درمیان اس موضوع پر ایک اور باضابطہ اجلاس متوقع ہے۔

چند روز قبل ایک پریس کانفرنس میں وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر، جو سی سی او ای کے سربراہ بھی ہیں، نے مشاہدہ کیا تھا کہ کے ای ای کے معاملات کا حل ناگزیر ہوچکا ہے بصورت دیگر اس کی وصولی اور قابل ادائیگی گردشی قرضوں میں 421 ارب روپے کا اضافہ کردے گی۔

کے ای کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ ایس ایس جی سی ایل کے واجبات متنازع ہیں کیونکہ اس میں 13 ارب روپے کی اصل رقم کے مقابلہ میں 90 ارب کے کمپاؤنڈ سود بھی شامل ہے۔

ان کا مؤقف تھا کہ اگر کے ای کو کمپاؤنڈ سود ادا کرنا پڑتا ہے تو پھر سرکاری اداروں پر اس کے واجبات کی ادائیگی پر بھی اسی اصول پر عمل ہونا چاہیے۔

وفاقی حکومت نے کے الیکٹرک کے لیے بجلی کی فراہمی کو نیشنل گرڈ سے بڑھا کر 1400 میگاواٹ کرنے کی پیش کش کی تھی۔

2021 میں این ٹی ڈی سی کے ای کو 450 میگاواٹ اضافی بجلی فراہم کرے گی۔

جی ایس اے اور پی پی اے پر دستخط کرنے میں تاخیر کا باعث بننے والے معاملات کا عدم حل، اگلے موسم گرما میں کراچی میں بجلی کی قلت اور بندش کا ایک اہم ذریعہ بن سکتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں