سپریم کورٹ کا اے ٹی سی کو قانون کے مطابق پروین رحمٰن قتل کیس کی سماعت نمٹانے کا حکم

05 دسمبر 2020
ٹرائل کورٹ نے عدالت عظمٰی سے استدعا تھی کہ وہ مقدمے کی سماعت کے لیے مزید وقت کی اجازت دے جو ابھی جاری ہے، رپورٹ - فائل فوٹو:جسٹس فار پروین
ٹرائل کورٹ نے عدالت عظمٰی سے استدعا تھی کہ وہ مقدمے کی سماعت کے لیے مزید وقت کی اجازت دے جو ابھی جاری ہے، رپورٹ - فائل فوٹو:جسٹس فار پروین

کراچی: سپریم کورٹ نے انسداد دہشت گردی عدالت کو ہدایت کی ہے کہ وہ اورنگی پائلٹ پروجیکٹ (او پی پی) کی سربراہ پروین رحمٰن کے قتل کے مقدمے کو قانون کے مطابق ختم کرے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس کیس میں عبدالرحیم سواتی، ان کے بیٹے محمد عمران سواتی اور تین شریک ملزمان ایاز شامزئی عرف سواتی، امجد حسین خان اور احمد خان عرف احمد علی عرف پپو کشمیری پر پروین رحمٰن کے قتل کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

پروین رحمٰن کو 13 مارچ 2013 کو اورنگی ٹاؤن میں ان کے دفتر کے قریب گولی مار کر ہلاک کردیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: پروین رحمٰن قتل کیس: 5 سال میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی،سپریم کورٹ برہم

ستمبر میں عدالت عظمیٰ نے کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) 12 کے جج کو ہدایت کی تھی کہ وہ ایک ماہ کے اندر مقدمے کو ختم کریں کیونکہ فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کی چوتھی مشترکہ تحقیقات نے عدالت عظمیٰ کی ہدایت پر دوبارہ تفتیش کا فیصلہ کیا ہے۔

عدالتی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ اے ٹی سی کے جج نے نومبر میں سپریم کورٹ سے اس معاملے میں پیش رفت کے بارے میں ایک رپورٹ بھیجی تھی۔

ذرائع نے بتایا کہ ٹرائل کورٹ نے عدالت عظمی سے استدعا تھی کہ وہ مقدمے کی سماعت کے لیے مزید وقت کی اجازت دے جو ابھی جاری ہے۔

اسی اثنا میں ذرائع نے بتایا کہ اے ٹی سی کے جج کے عہدے کی میعاد 23 نومبر کو ختم ہوگئی تھی لہذا اس معاملے کو مزید کارروائی کے لیے اے ٹی سی 4 میں منتقل کردیا گیا تھا۔

عدالتی ذرائع نے بتایا کہ عدالت عظمی کی طرف سے ایک خط موصول ہوا ہے جس میں اے ٹی سی 4 کے جج کو قانون کے مطابق مقدمہ ختم کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’پروین رحمٰن کے قتل میں طالبان نہیں، لینڈ مافیا ملوث تھی‘

ہائی پروفائل کیس میں مقدمے کی سماعت سندھ ہائیکورٹ کی جانب سے قتل کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی جانے والی تین مشترکہ تحقیقاتی ٹیموں (جے آئی ٹی) کے سربراہوں کے ثبوت ریکارڈ کیے بغیر فیصلہ سنانے کے خلاف پابندی عائد کرنے کے حکم نامے کے بعد تقریبا ڈیڑھ سال تک تعطل کا شکار رہی تھی۔

قبل ازیں اے ٹی سی 12 کے جج نے کرمنل پروسیجر کوڈ (سی آر پی سی) کی دفعہ 342 کے تحت ملزمان کے بیانات قلمبند کیے تھے۔

تاہم مقتول سماجی رضاکار کی بہن، شکایت کنندہ نے تینوں جے آئی ٹی کے سربراہان کے ثبوت ریکارڈ کرنے کے لیے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا اور سندھ پولیس پر 'عدم اعتماد' کا اظہار کرتے ہوئے ایف آئی اے کے ذریعے قتل کی نئی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے سامنے ایک علیحدہ درخواست بھی دائر کی تھی۔

استغاثہ کے مطابق دوران تفتیش حراست میں لیے گئے چند ملزمان نے اس جرم میں اپنے ملوث ہونے کا اعتراف کیا تھا اور انکشاف کیا تھا کہ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے مقامی رہنماؤں نے مبینہ طور پر پروین رحمٰن کو قتل کرنے کے لیے طالبان کے عسکریت پسندوں کی خدمات حاصل کی تھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں