پاکستان کو پابندیوں سے بچنے کیلئے امریکی صدارتی استثنیٰ مل گیا

اپ ڈیٹ 10 دسمبر 2020
سیموئل ڈی براؤن بیک نے دعویٰ کیا کہ دنیا بھر میں توہین مذہب کے الزام میں قید افراد کی نصف تعداد پاکستان میں ہے—تصویر: رائٹرز
سیموئل ڈی براؤن بیک نے دعویٰ کیا کہ دنیا بھر میں توہین مذہب کے الزام میں قید افراد کی نصف تعداد پاکستان میں ہے—تصویر: رائٹرز

واشنگٹن: امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیکل پومپیو نے پاکستان کے لیے صدارتی استثنیٰ جاری کیا ہے جس سے مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کرنے والے ممالک پر لگنے والی پابندیوں سے اسے چھوٹ مل جائے گی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 2 روز قبل امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ نے پاکستان اور دیگر 9 ممالک کو سال 20-2019 کے دوران مذہبی آزادی کی مبینہ خلاف ورزی پر 'خاص تشویش والے ممالک' قرار دیا تھا۔

پاکستان نے اس عمل کو 'من مانا اور منتخب جائزہ' قرار دے کر مسترد کردیا تھا جو 'زمینی حقائق کے منافی اور اس پورے طریقہ کار کے معتبر ہونے پر سنگین شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان نے مذہبی آزادی پر 'بلیک لسٹ' کرنے کا امریکی اقدام مسترد کردیا

پاکستان کو اس فہرست میں امریکی بین الاقوامی مذہبی آزادی ایکٹ 1998 کے تحت شامل کیا گیا جس کے نتیجے میں مبینہ خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت معاشی پابندیاں عائد ہوجاتی ہیں۔

تاہم امریکی ایمبیسیڈر ایٹ لارج برائے مذہبی آزادی سیموئل ڈی براؤن بیک نے نیوز بریفنگ میں بتایا کہ کچھ ممالک کو معاشی پابندیوں سے استثنٰی دیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان، نائیجیریا، سعودی عرب، تاجکستان اور ترکمانستان کو سیکریٹری نے صدارتی کارروائی کی شرط کے لیے چھوٹ جاری کی ہے اور امریکا کے اہم قومی مفادات کی وجہ سے استثنٰی دینے کے اختیار کو استعمال کیا گیا۔

امریکی کمیشن برائے مذہبی آزادی جس نے یہ فہرست جاری کی اس نے بھارت کو بھی ان ممالک میں شمار کرنے کی تجویز دی تھی لیکن پیر کو جاری کردہ فہرست میں بھارت کا نام نہیں تھا۔

مزید پڑھیں: امریکا نے پاکستان سمیت 9 ممالک کو مذہبی آزادی کی خلاف ورزی فہرست میں شامل کردیا

پاکستان نے نشاندہی کی تھی کہ رپورٹ میں بھارت کو نظر انداز کر دیا گیا جہاں آر ایس ایس۔بی جے پی حکومت اور ان کے قائدین منظم انداز میں مذہبی آزادیوں کی کھلے عام خلاف ورزیاں اور اقلیتی برادری کے ساتھ امتیازی سلوک کرتے ہیں، اس امتیازی رویے نے امریکی رپورٹ کی ساکھ پر سوالات پیدا کیے ہیں۔

مذکورہ معاملہ واشنگٹن میں ایک نیوز بریفنگ کے دوران بھی اٹھایا گیا جب ایک صحافی نے ایمبیسڈر براؤن بیک کو یاد دلایا کہ مودی حکومت نے امتیازی قوانین نافذ کیے ہیں اور بھارت میں مذہبی اقلیتوں کو کھلے عام نشانہ بنایا جارہا ہے اس کے باوجود بھارت کو اس فہرست میں شامل نہیں کیا گیا۔

جس کے جواب میں براؤن بیک کا کہنا تھا کہ 'ایسی بہت سی تجاویز تھیں جن پر سیکریٹری اسٹیٹ نے عمل نہیں کیا اور یہ ان میں سے ایک تھی'۔

ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ 'ہم نے بھارت میں صورتحال کو نزدیک سے دیکھا ہے، سیکریٹری آف اسٹیٹ متعدد مرتبہ ویاں دورے پر گئے ہیں اور وہ بھارت میں ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد سے اچھی طرح آگاہ ہیں'۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا کی مذہبی آزادی کی واچ لسٹ میں پاکستان کا نام برقرار

بھارت کے ساتھ مختلف رویہ کیوں رکھا گیا کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بہت سے کام حکومت نے کیے ہیں جبکہ بھارت میں کچھ کام حکومت نے کیے اور قانون منظور کیا جبکہ زیادہ تر وہاں مذہبی فسادات ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب ایسا ہوتا ہے تو ہم اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ مذہبی فسادات ہونے کے بعد کیا پولیس اور عدالتی کارروائی کا بھرپور نفاذ ہوا کہ نہیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ دنیا بھر میں توہین مذہب کے الزام میں قید افراد کی نصف تعداد پاکستان میں ہے اور اس نکتے کو بھی پاکستان کو اس فہرست میں شامل کرتے ہوئے مدِ نظر رکھا گیا۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ پاکستان، ان ممالک میں بھی شامل ہے، جہاں جبری طور پر زیادہ تر اقلیتی دلہنوں کو چین بھیجا جاتا ہے۔

تاہم امریکی مندوب برائے مذہبی آزادی نے یہ بھی کہا کہ بھارت کو خاص تشویش والا ملک نہ قرار دینے مطلب یہ نہیں ہے کہ وہاں یہ مسائل نہیں پائے جاتے۔

تبصرے (0) بند ہیں