ڈینیئل پرل کیس: سپریم کورٹ نے ملزمان کے اعتراف جرم پر سوالات اٹھا دیے

اپ ڈیٹ 10 دسمبر 2020
وال اسٹریٹ جرنل کے جنوبی ایشیا کے بیورو چیف ڈینیئل پرل کو جنوری 2002 میں کراچی میں اغوا کر کے قتل کردیا گیا تھا— فائل فوٹو: ڈان
وال اسٹریٹ جرنل کے جنوبی ایشیا کے بیورو چیف ڈینیئل پرل کو جنوری 2002 میں کراچی میں اغوا کر کے قتل کردیا گیا تھا— فائل فوٹو: ڈان

سپریم کورٹ میں ڈینیئل پرل کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے گواہوں کی شناخت اور اعتراف جرم کے حوالے سے سوالات اٹھا دیے۔

سپریم کورٹ میں امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے ملزمان کی بریت کے خلاف دائر اپیلوں پر سماعت ہوئی۔

مزید پڑھیں: ڈینیئل پرل قتل کیس: مقتول کی اہلیہ کا تفتیش میں شامل نہ ہونا بدقسمتی ہے، سپریم کورٹ

جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی تو سندھ حکومت کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے آج بھی دلائل دینے کا سلسلہ جاری رکھا۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اس کیس میں دو ملزمان فہد نسیم اور سلمان ثاقب ہیں۔

اس پر جسٹس سردار طارق مسعود نے استفسار کیا کہ کیا گواہ نے یہ شناخت کی کہ فہد کون ہے اور سلمان کون ہے؟ کیا گواہ نے عدالت کے سامنے یہ کہا کہ اس سے خریداری کرنے کون آیا تھا؟

وکیل نے جواب دیا کہ ایسے شناخت نہیں ہوئی، جو ملزمان ایسے جرائم کرتے ہیں وہ اپنا اصلی نام کبھی نہیں بتاتے۔

یہ بھی پڑھیں: ڈینیئل پرل کیس: تیسرے گواہ کا بیان ریکارڈ کرنے کی درخواست منظور

جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ جو دو اعتراف جرم کیے گئے وہ ایک ملزم نے تشدد سے کیا اور دوسرے کو جان کا خطرہ تھا۔

اس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اگر یہ اعتراف جرم مرضی سے نہیں ہوئے تب بھی یہ سچ پر مبنی ہیں، ملزم فہد نے یہ کہیں نہیں کہا کہ اس پر تشدد ہوا جبکہ سلمان نے بعد میں کہا کہ اس پر تشدد ہوا۔

جسٹس طارق نے کہا کہ ہم نے حالات و واقعات سے دیکھنا ہے کہ اعتراف جرم تشدد سے ہوا یا مرضی سے کیا۔

حکومت سندھ نے کہا کہ یہ کسی پٹواری کا کیس نہیں، جس شخص پر الزام ہے وہ بین الاقوامی دہشت گردی میں ملوث ہے، دونوں ملزمان کے اعتراف جرم ملتے ہیں، الگ الگ نہیں ہیں۔

جسٹس طارق نے مزید کہا کہ آپ جو دستاویزات پڑھ رہے ہیں وہ اعتراف جرم سے متعلق ہیں، اگر اعتراف جرم ہی ختم ہو گیا تو ان کی کیا اہمیت ہے؟

مزید پڑھیں: ڈینیئل پرل کیس: عمر شیخ کی سزائے موت 7 سال قید میں تبدیل، 3 ملزمان رہا

حکومت سندھ کے وکیل نے کہا کہ ملزم فہد نے اپنی مرضی سے کہا کہ وہ اعتراف کرنا چاہتا ہے، مقدمے میں 2 اعترافی بیانات ہیں، دونوں ملزمان کا اعترافی بیان حقائق سے مطابقت رکھتا ہے اور دونوں ملزمان کے اعترافی بیان کی روشنی میں ریکوری بھی ہوئی۔

دوران سماعت جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ مقتول کے کیمرے کی رسیدیں کہاں سے ملیں؟ کیا رسیدیں ملزم عمر شیخ سے برآمد ہوئیں؟

فاروق ایچ نائیک نے اس کے جواب میں کہا کہ جی، کیمرے کی رسیدیں عمر شیخ سے برآمد ہوئیں۔

یہ بھی پڑھیں: عمر سعید شیخ: ایک طالبعلم سے مجرم تک کا سفر

کیس کی سماعت منگل تک ملتوی کردی گئی اور فاروق ایچ نائیک منگل کو بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔

ڈینیئل پرل قتل کیس

وال اسٹریٹ جرنل کے جنوبی ایشیا کے بیورو چیف 38 سالہ ڈینیئل پرل کو جنوری 2002 میں کراچی میں اس وقت اغوا کر کے قتل کردیا گیا تھا جب وہ مذہبی انتہا پسندی کے حوالے سے ایک مضمون پر کام کر رہے تھے۔

جس پر انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ملزم احمد عمر سعید شیخ المعروف شیخ عمر کو سزائے موت جبکہ شریک ملزمان فہد نسیم، سلمان ثاقب اور شیخ عادل کو مقتول صحافی کے اغوا کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

بعد ازاں حیدر آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے شیخ عمر اور دیگر ملزمان کو اغوا اور قتل کا مرتکب ہونے پر سزا ملنے کے بعد ملزمان نے 2002 میں سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

مزید پڑھیں: امریکا کی ڈینیئل پرل قتل کیس کے فیصلے پر تنقید

ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے ریکارڈ کا جائزہ لینے، دلائل سننے کے بعد ملزمان کی 18 سال سے زیر التوا اور حکومت کی جانب سے سزا میں اضافے کی اپیلوں پر سماعت کی تھی اور رواں سال مارچ میں فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

سندھ ہائی کورٹ نے امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے اغوا کے بعد قتل کے مقدمے میں 4 ملزمان کی دائر کردہ اپیلوں پر فیصلہ سناتے ہوئے 3 کی اپیلیں منظور کرلیں تھیں جبکہ مرکزی ملزم عمر شیخ کی سزائے موت کو 7 سال قید میں تبدیل کردیا تھا۔

بینچ نے اپنے فیصلے میں 3 ملزمان کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا جبکہ مجرم احمد عمر سعید شیخ المعروف شیخ عمر کی سزائے موت کو 7 سال قید میں تبدیل کردیا تھا۔

فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواستیں

واضح رہے کہ ڈینیئل پرل قتل کیس میں سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے 3 ملزمان کی بریت اور مرکزی ملزم کی سزا میں تخفیف کے فیصلے کے خلاف مقتول صحافی کے اہلِ خانہ اور حکومت سندھ نے سپریم کورٹ میں علیحدہ علیحدہ درخواست دائر کی تھی۔

سندھ حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر اپیل میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ وال اسٹریٹ جنرل کے صحافی کی قتل کی ویڈیو کی ایک سرکاری عہدیدار (پی ٹی وی کے ایک ماہر) سے تصدیق کروائی گئی تھی جبکہ اسے کبھی چیلنج نہیں کیا گیا۔

چنانچہ جمع شدہ ثبوتوں اور خاص کر ملزم اور شریک ملزمان کے اعترافی بیانات کے تناظر میں ہائی کورٹ کی جانب سے سزا میں تبدیلی اور بریت پائیدار نہیں اور اسے کالعدم ہونا چاہیے۔

مزید پڑھیں: ڈینیئل پرل کے قاتلوں کو رہا کروانے کا منصوبہ ناکام

اسی طرح فطری اور آزاد شواہد اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ تاوان کا مطالبہ ملزم نے ہی کیا تھا اور ڈاکیومینٹری ثبوت سے یہ بات ثابت بھی ہوئی چنانچہ سزا میں تبدیلی اور بریت غیر قانونی ہے۔

اپیل میں کہا گیا تھا کہ ملزم ایسا کوئی مواد پیش نہیں کرسکا جو پراسیکیوشن کے ثبوتوں کے خلاف شک پیدا کرتا بلکہ شریک ملزمان نے ریمانڈ کے دوران ٹرائل جج کے سامنے اپنا جرم قبول کیا۔

عدالت عظمیٰ میں دائر اپیل میں کہا گیا تھا کہ ہائی کورٹ اس کیس کے سنگین عوامل سمجھنے میں ناکام رہی جبکہ ملزم اور شریک ملزمان کی بریت اور سزائے موت میں تبدیلی کا فیصلہ انصاف کا قتل اور عدالت عظمیٰ کے طے کردہ اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں